ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2011 |
اكستان |
|
نے اپنے اپنے گناہ پر پکڑا تو اُن میں سے کچھ پر ہم نے ہوا سے پتھراؤ کا عذاب بھیجا اَور کچھ کو ''چنگھاڑ'' نے پکڑا اَور کوئی تھا کہ ہم نے اُسے زمین میں دھنسا دیا اَور کوئی تھا کہ ہم نے اُسے غرق ِآب کردیا۔ اَور اللہ ایسا نہ تھا کہ اُن پر ظلم کرے لیکن وہ اپنا آپ ہی برا کیا کرتے تھے۔ '' قرآنِ کریم میں عادت اللہ بتلائی گئی ہے : فَلَمَّا جَآئَ ھُمْ نَذِیْر مَّازَادَھُمْ اِلاَّ نُفُوْرَا اِسْتِکْبَارًا فِی الْاَرْضِ وَمَکْرَ السَّیِّیِٔ الایة۔(پ ٢٢ سُورة الفاطر آیت ٤٢،٤٣،٤٤ ) ''جب اُن کے پاس ڈر سنانے والا آیا تو اُن کا بدکنا اَور زیادہ ہو گیا۔ رُوئے زمین پر غرور و تکبر اَور برے کام کے دَاؤپیچ اَور برائی کا دَاؤ اُن ہی دَاؤں والوں پر اُلٹے گا تو کیا وہ پہلے گزرنے والوں کے دستور کے اِنتظار میں ہیں تو ہر گز تم اللہ کے دستور میں تبدیلی نہ پاؤگے اَور نہ ہی اُس کا دستور ٹلتا پاؤگے۔ کیا اُن لوگوں نے زمین پر سفر نہیں کیا کہ دیکھ لیں کہ اُن لوگوں کا جواِن سے پہلے تھے کیسا اَنجام ہوا اَور وہ اُن سے زَور میں بہت زیادہ تھے۔ اَور اللہ وہ نہیں جس کو کوئی چیز آسمانوں یا زمین میں تھکا سکے، وہی ہے جو سب کچھ جانتا اَور کر سکتا ہے۔ '' س : اِسلام میں ملکیت کا تصور کیا ہے؟ یعنی ایک آدمی زیادہ سے زیادہ کتنی اَراضی کا مالک ہو سکتا ہے؟ ج : اِسلام میں ذاتی ملکیت تسلیم کی گئی ہے۔ بے حساب مال تو ناجائز ذرائع آمدنی سے حاصل ہوتاہے اَور وہ اِسلام میں ممنوع ہے ۔تاجر کو بھی دس فیصد سے زیادہ نفع نہیں لینا چاہیے۔ اِسلام کے اِقتصادی نظام سے درمیانہ طبقہ کی تعدادزیادہ ہوجاتی ہے نچلا طبقہ بہت ہی تھوڑا رہ جاتا ہے اَور لا محدود دَولت کسی کے پاس نہیں ہونے پاتی۔ اگر کسی نے ناجائز ذرائع سے حاصل کی ہے تو تھوڑی ہو یا زیادہ سب ضبط کر لی جائے گی۔ اَور اگر