ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2011 |
اكستان |
|
حیرت زدہ رہ گئے اَور بے اِختیار بول اُٹھے کہ دُنیا میں میں نے کسی قوم کو اپنے سردار کی اِس طرح بے مثال اِطاعت کرتے ہوئے نہیں دیکھا، نہ تو فارس کے باعزت بادشاہوں میں اَور نہ رُومیوں کی صدیوں سے چلی آرہی حکومت میں اَور پھر حضرت عباس ص سے خطاب کرتے ہوئے بولے: ''اے اَبو الفضل (حضرت عباس صکی کنیت)آپ کے بھتیجے کو تو زبردست بادشاہت نصیب ہوگئی ہے۔'' حضرت عباس صنے جواب دیا کہ ''یہ بادشاہت نہیں بلکہ نبوت ہے۔'' (مصنف ابن اَبی شیبہ، حیاة الصحابہ ١٢٩٣) ایک روایت میں ہے کہ یہ منظر دیکھ کر حضرت اَبوسفیان صنے حضرت عباسص سے سوال کیا تھا کہ : ''کیا یہ لوگ پیغمبر علیہ السلام کے ہر حکم کی تعمیل کے لیے تیار ہیں؟''تو حضرت عباس ص نے فرمایا کہ ''جی ہاں اگر آپ ۖ اِنہیں کھانا پینا چھوڑنے کا حکم دے دیں تو اِس کی بھی یہ سب اِطاعت کریں گے''۔ (حیاة الصحابہ ١٣٠٢) حکمِ نبوی کی فوری تعمیل : حضرت سہل بن حنظلہ عبثمی ص ایک صحابی ہیں، فرماتے ہیں کہ مجھ سے ایک مرتبہ پیغمبر علیہ السلام نے اِرشاد فرمایا کہ :''خریم اسدی ص بڑے اچھے آدمی ہیں اگر اُن میں دو باتیں نہ ہوں ایک اُن کے سر کے بالوں کا حد سے زیادہ لمبا ہونا، دُوسرے تہبند کا ٹخنے سے نیچے ہونا۔ جب یہ بات حضرت خریم ص تک پہنچی تو اُنہوں نے بِلا توقف اُسترا لے کر اپنی زُلفیں آدھے کان تک کاٹ ڈالیں اَور نصف پنڈلی تک اپنا تہبند اُوپر کرلیا۔''(حیاة الصحابہ ٦٣٠٢) ہمارے آقا ۖ کا تو طریقہ یہی ہے : حضرت سیّدنا عثمان غنی صصلح حدیبیہ کے موقع پر مصالحت کی گفتگو کے لیے مکہ معظمہ تشریف لے گئے، پیغمبر علیہ السلام دیگر ساتھیوں کے ساتھ حدیبیہ میں اِقامت گزیں تھے، اَبان بن سعید بن الوقاص نے حضرت عثمان صکو اپنی پناہ میں لیا اَور اپنی سواری پر بٹھا کر لے چلے تودیکھا کہ حضرت عثمان صنے پرانے سے کپڑے زیبِ تن کررکھے ہیں اَور تہبند آدھی پنڈلی تک ہے، یہ دیکھ کر اَبان بن سعید سے نہیں رہا گیا اَور اُنہوںحضرت عثمان صکو ٹوکتے ہوئے کہا کہ کیا بات ہے میں آپ کو پرانے کپڑوں میں دیکھ رہا ہوں؟ آپ بھی اِسی طرح اپنے کپڑے کو نیچے لٹکائیے جیساکہ یہاں کے (معزز) لوگوں کا معمول ہے، تو حضرت