ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2011 |
اكستان |
|
کے لیے حیااَمرِ طبعی ہے (یعنی فطرت اَور طبیعت کا تقاضا ہے) لہٰذا پردہ کا حبس طبیعت کے موافق ہو اَور اِس کو قید کہنا غلط ہے۔ اُن کی حیا کا تقاضا بھی یہی ہے کہ (عورتیں) پردہ میں مستور (چھپی) رہیں بلکہ اگر اُن کوباہر پھرنے پر مجبور کیا جائے تو یہ طبیعت کے خلاف ہوگا اَور اِس کو قید کہنا چاہیے۔ پردہ میں غلو اَور عورت پر ظلم، مردوں کی ذمہ داری : ایسا پردہ نہ (ہونا چاہیے) جو قید کا مصداق ہو یعنی پردہ تو ضرور ہو مگر پردہ میں اِس کی دِلجوئی کا سامان بھی مہیا ہو۔ یہ نہیں کہ میاں صاحب نماز کو جائیں تو باہر سے تالا لگا کر جائیں کسی سے اِس کو ملنے نہ دیں، نہ اِس کی دِلجوئی کا سامان کریں۔ بے شک پردہ میں عورتوں کی دلچسپی کا سامان (اِنتظام) کریں کہ اُن کو باہر نکلنے کی ہوس ہی نہ ہو۔ سمجھنے کی بات ہے کہ اَگر مردوں کو کسی وقت وحشت ہوتی ہے تو باہر جا کر ہم جنسوں میں دِل بہلا سکتے ہیں۔ بے چاری عورتیں پردہ میں اکیلی کس طرح ہم جنسوں میں جاکر دِل بہلائیں۔ تم کو چاہیے کہ یا تو خود اِس کے پاس بیٹھو یا تم کو فرصت نہیں ہے تو اُس کی کسی ہم جنس عورت کو اُس کے پاس رکھو۔ اگر کسی وقت کسی بات پر وہ شکایت بھی کرے تو معمولی بات پر برا مت مانو ،تمہارے سوا اُس کا کون ہے جس سے وہ شکایت کرنے جائے اُس کی شکایت کو نازو محبت پر محمول کرو۔ (معارف حکیم الامت) پردہ کی وجہ سے بے خبری اَور بھولے پن کا شبہ : ہندوستان کی عورتیں اکثر تو ایسی ہیں کہ اُن کو اپنے سوا دُنیا کی کچھ خبر نہیں ہوتی چاہے اُن پر کچھ ہی گزر جائے مگر اپنے کونے سے الگ نہیں ہوتیں۔ بس اُن کی وہ شان ہے جو حق تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے اَلْمُحْصَنَاتِ الْغَافِلَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ یعنی پاک دامن ہیں اَور بھولی ہیں چالاک نہیں۔ اِس میں غافلات بھولی بھالی کا لفظ کیسا پیا را معلوم ہوتا ہے کہ واقعی نقشہ کھینچ دیا۔ اَور یہ صفت عورتوں کے اَندر پردہ کی وجہ سے ہوتی ہے کہ اُن کو چار دِیواری کے سوا دُنیا کی کچھ خبر نہیں ہوتی جس کو آج کل کہا جاتا ہے کہ عورتوں کے پردہ نے مسلمانوں کا تنزل کردیا کیونکہ عورتوں کو قید میں رہنے کی وجہ سے دُنیا کی کچھ خبر نہیں ہوتی نہ صنعت و حرفت سیکھتی ہیں نہ علوم و فنون سے آگاہ ہیں بس کمانے کا سارا بوجھ مردوں پر رہتا ہے۔ دُوسری قوموں کی عورتیں خود بھی صنعت و حرفت سے کماتی رہتی ہیں۔