ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2011 |
اكستان |
|
حضرت قاری عبداللہ صاحب مکی کی مدرسہ سے محبت : آپ کا یہ حال تھا کہ آپ دُنیا کی بڑی بڑی دعوتوں پر بھی کہیں پڑھانے نہیں گئے اَور اِبتداء سے لے کر آخر عمر تک یہیں پڑھایا اَور منصب ِ صدارت پر تجوید وقراء ٰت کی چالیس سال خدمت کی اَور اِمام الفن حضرت قاری عبدالمالک صاحب ،اِن کے برادرِ کبیر حضرت قاری عبدالخالق صاحب ،اُستاذ الاساتذہ حضرت قاری عبدالرحمن صاحب مؤلف فوائد مکیہ ،حضرت مولانا اَشرف علی تھانوی جیسے علم و فن کے جامع لاتعداد اَساتذہ تیار کیے اَب جَنَّتُ الْمَعْلٰی (مکہ مکرمہ) میں خواب اِستراحت ہیں اَللّٰہُمَ اغْفِرْلَہُمْ وَارْحَمْہُمْ لمحہ فکریہ : اگر اِنتظامیہ کے نزدیک اِس علم و فن کی اہمیت اَور مدرس کی جفاکشی کی قدر ہو تو مدرس ہر صعوبت کو برداشت کرتاہے اَور اپنے لگائے ہوئے باغ کو اُجاڑاتا نہیں۔ خلاء اُسی وقت ہوتا ہے جب مدرس بے بس ہو جائے اَور جو مدرس اِس مقدس کام کو ذریعہ معاشی سمجھتے ہیں وہ ہمارے موضوع سے خارج ہیں۔ شیخ القراء اِبراہیم سعد مصری : جب شیخ القراء اِبراہیم سعد مصری مکہ مکرمہ آئے تو مہتمم صاحب نے آپ کی خدمات حاصل کر لیں آپ صاحب فضل و کمال اَور علم و فن کے جامع تھے۔ آپ کے اَور شیخ محمد المتولی (مؤلف ''الوجوہ المسفرہ'') کے درمیان حسن بُدیر کا ایک واسطہ ہے۔ شیخ علی الضبّاع مصری : اپنے وقت کے شیخ القراء تھے۔ آپ کے اَور شیخ محمد المتولی کے درمیان بھی ایک ہی واسطہ ہے۔ بندہ نے ١٩٦٥ء میں پہلا سفر حج اِیران عراق کے راستہ سے کیا۔ واپسی پر عراق کے صحراء میں قہوہ خانہ (ہوٹل) تھا۔ گاڑی ٹھہری، ریڈیو مصر سے تلاوت آرہی تھی، ایسی تلاوت کبھی نہیں سنی تھی۔ تجوید کا اِنتہائی بلند معیار ،غضب کی لطافت، لہجوں کی پختگی اَور آواز کی گرفت نے حیرت زدہ کردیا، یہ تلاوت شیخ علی الضبّاع کی تھی۔ اِس سے شیخ اِبراہیم سعد کی فنی پروانہ کا اَندازہ ہوا کیونکہ دونوں ہم عصر تھے۔