ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2011 |
اكستان |
|
ایک محفل کا واقعہ : حضرت قاری عبدالمالک صاحب تلاوت کر رہے تھے محفل گرم تھی حضرت قاری عبداللہ صاحب مکی تشریف لائے اَور باہر ہی بیٹھ گئے۔ تلاوت کے سرور میں جھومنے لگے لیکن جب ملاقات ہوئی تو فرمایا یہ کیا کیا، یہ کیاکیا وغیرہ۔ یہی روک ٹوک ترقی کے راز ہیں۔ اَب تو بڑے رہے نہیں کون روک ٹوک کرے۔ یَا اَسَفٰی وَ یَا حَسْرَتٰی حضرت حاجی اِمدادُاللہ صاحب مہاجر مکی : حضرت حاجی صاحب کو اِس بات کا بہت صدمہ تھا کہ حجاز ِمقدس میں عرب ہندوستانی علماء کو حقارت و نفرت کی نظر سے دیکھتے ہیں اَور اِن کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے کیونکہ اِنہیں قرآن پڑھنا نہیں آتا۔ حضرت مولانا رحمت اللہ صاحب کیرانوی کی فکر سلیم اَور حضرت قاری عبداللہ صاحب مکی کی محنت و لگن نے ہندوستانیوں کے سروں پر عزت و و قار کا تاج رکھ دیا فَلِلّٰہِ الْحَمْدُ وَالْمِنَّةُ حضرت حاجی اِمدادُاللہ صاحب مہاجر مکی نے حضرت تھانوی کو ١٦ رجب ١٣١٠ھ کو خط لکھا کہ ہندوستانی علماء کو قرآن پڑھنا نہیں آتا جس کی وجہ سے عرب حقارت و نفرت سے دیکھتے ہیں اَور اِن کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے۔ حضرت مولانارحمت اللہ صاحب کیرانوی نے مدرسہ صولتیہ کے اِبتدائی دَور ہی میں تجوید کا اہتمام کیا کیونکہ علم ِ تجوید کا رواج بہت کم ہو گیا ہے اَور ہندوستان میں تو بہت ہی کم ہے۔ اَب بفضل ِاللہ قاری عبدالقادر صاحب مدراسی کی اَنتھک محنت سے حقارت و نفرت کے بادل چھٹنے شروع ہوگئے ہیں۔ مدرسہ کے جلسہ میں ہندوستانی بچوں نے تلاوتیں کیں تو عرب بھی جھوم رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہندوستانی قراء جنہوں نے مدرسہ صولتیہ اَور اُس کی شاخوں سے تجویدو قراء ٰت کی تکمیل کی اَور دیگر علوم پڑھے اَور کامل قاری بن کر نکلے اَور حرمین شریفین کے مدارس میں مدرس ہیںاَور تعلیم یافتہ عرب اَساتذہ تک کو تجوید پڑھا رہے ہیں اَور کتنی خوشی کی بات ہے شیخ عبداللہ خیاط صاحب اِسی مدرسہ صولتیہ کے فضلاء میں سے تھے عالم اَور قاری تھے، آخر عمر تک حرم مکی کے خطیب رہے۔