ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2011 |
اكستان |
|
بے حیاء یہودیوں کی خوش فہمی : تو اَب یہودیوں کی وہ بات نہ رہی کہ اَکڑ کر چل سکیں وہ کہا کرتے تھے کہ ہم میں نبی آنے والے ہیں وہ نبی آئیں گے تو پھر ہم تم لوگوں سے بدلہ لیں گے ظالم بھی خود اَور اپنے ہی میں نبی بھی لانا چاہ رہے ہیں اَور بدلہ بھی اِن(مظلوم) اَنصار سے لینا چاہ رہے ہیں۔ پھر یہ ہوا کہ اَوس اَور خزرج میں باہم قبائلی لڑائی چھڑ گئی وہ چلتی رہی ہے ایک سو بیس سال بڑی لمبی لڑائی جو کوئی اُن میں اُبھر تا تھا وہ مارا جاتا تھا دُوسرا اُبھرا وہ مارا گیا کوئی خاص قابلِ ذکر سردار بھی نہیں رہا یعنی یہ صدیوں پر پھیلی ہوئی تاریخ ہے۔ ہجرت سے کوئی تین سال چار سال پہلے لڑائی ختم ہوئی ہے اَور یہودیوں کی وہ باتیں اِن کے ذہن میں تھیں وہ دھمکیاں دیا کرتے تھے کہ نبی آنے والے ہیںاَور وہ آئیں گے تو ہم تمہاری خبر لیں گے اَور ہمیں تمہارے اُوپر غلبہ حاصل ہوجائے گا ۔ اَنصار کا قبولِ اِسلام میں سبقت لے جانا : مدینہ منورہ کے دونوں قبیلے اَوس اَور خزرج کی جب یہ لڑائی تھمی آپس کی تو پھر یہ مکہ مکرمہ حج وغیرہ کے لیے آنے شروع ہوئے ، یہ وہ زمانہ تھا کہ رسول اللہ ۖ حج کے موقع پر دعوت دیا کرتے تھے اِسلام قبول کرنے کی اپنے عقیدے توحید کی تو جو قبائل آتے تھے باہر سے اُن میں آپ تشریف لے جاتے تھے وہاں جا کر گفتگو کرتے تھے تو اِن لوگوں سے جب گفتگو ہوئی تو اِن لوگوں نے کہا کہ جو یہودی کہتے ہیں کہ اِس طرح نبی آنے والے ہیں تومعلوم ہوتا ہے کہ یہی ہیں وہ نبی تو ایسا کیوں نہ کریں ہم سبقت کریں یہودیوں سے بھی پہلے ہم اِسلام قبول کرلیں تو یہودیوں سے بھی پہلے وہ مسلمان ہونے شروع ہوگئے ہر سال وہ آتے تھے تو کچھ نہ کچھ تعداد زیادہ ہوجاتی تھی ۔ تعلیم ِدین کے لیے صحابی کی مدینہ منورہ آمد : رسول اللہ ۖ نے وہاں تبلیغ کے لیے کچھ حضرات بھیج دیے حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ اِنہوں نے وہاں تبلیغ کی بہرحال اِن کے اِسلام قبول کرنے کا ایک محرک یہ بھی تھا کہ یہودیوں سے یہ بات سنی تھی کہ رسول کریم علیہ الصلوة والتسلیم مبعوث ہونے والے ہیں وہ اِتنی دفعہ سنی تھی کہ وہ ذہن میں بسی ہوئی تھی