ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2011 |
اكستان |
|
ایک سفید زمین گویا رہی۔ حضرت عمر نے دِیوار بنوائی : حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے چاروں طرف اُس کے ایک دِیوار کھینچوادِی اُس سے پہلے کوئی شکل نہیں تھی اَور اَب تو بہت بڑی جگہ دُنیا کی سب سے بڑی عبادت گاہ ہے سب سے وسیع جگہ سب سے خوبصورت مزین اللہ تعالیٰ نے بنوادِی ہے اُن سے۔ حضرت اَبو ذر کے اِسلام لانے کا قصہ : تو رسول کریم علیہ الصلوة والتسلیم کو تلاش کرنے کے لیے یہ آئے اَور وہاں بیٹھ گئے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اُدھر سے گزر کے گئے پوچھا کیا ہے کہاں سے آئے ہیںمعلوم ہوتا ہے آپ باہر سے آئے ہوئے ہیں ۔اِنہوں نے کہا جی باہر سے آیا ہوا ہوں ،لے گئے اِن کو کہ آئیں پھر ہمارے یہاں ٹھہر جائیں وہاں ٹھہر گئے دوبارہ پھر اِسی طرح اَگلے دِن بھی ایسے ہی ہوا اُنہوں نے دُوسرے دِن یا تیسرے دِن اُن سے پوچھا کہ اگر آپ بتا سکتے ہوں کہ آپ کس لیے آئے ہیں تو بڑا اچھا ہو اُنہوں نے کہا میں بتا تو دُوں گا اگر آپ وعدہ کریں کہ رَاز رکھیں گے کسی کو بتائیں گے نہیں تو (وعدہ لینے کے بعد) اِنہوں نے کہا کہ میں تو آیا ہوں رسول اللہ ۖ کے بارے میں میں نے سنا ہے کہ نبی ہیں یہاں مبعوث ہوئے ہیں نبوت کا اُنہوں نے اِظہار کیا ہے اُن کی تلاش میں ہوں اُن سے ملنا چاہتاہوں اُنہوں نے کہا بہت اچھی جگہ پہنچے ایسے کرو کہ میں چل رہاہوں آگے آگے تم پیچھے پیچھے چلو اَور اگر کوئی اَندیشہ ہوگا تو میں ایسے کھڑا ہوجاؤں گا کہ جیسے کوئی پیشاب کر رہا ہے رُک جاؤں گا بیٹھ کر یا کھڑے ہو کر جس طرح بھی اُس زمانہ کا دستور تھا یا میں اپنا جوتا ٹھیک کرنے لگوں گا تو تم سمجھ جانا کہ کوئی آدمی ایسا ہے جو دیکھ رہا ہے ہمیں اَور وہیں ٹھہر جانا اِس طرح آپس میں طے کر لیا اَور چلے بالآخر پہنچ گئے رسول اللہ ۖ کے پاس۔ (اپنے آنے سے) پہلے( اِنہوں نے اپنے) بھائی کو بھیجا تھا بھائی(واپس آئے تو اُس) سے پوچھا کیسے ہیں کیا پایا ؟ بھائی نے کہا بہت اچھے ہیں نیکی کا حکم کرتے ہیں برائی سے روکتے ہیں وغیرہ کہنے لگے جیسے میں چاہتا تھا تفصیلات معلوم کرنی تم وہ نہیں کر کے آئے تو میں خود جاتا ہوں تو اَب خود آئے تھے مطلب یہ کہ مکہ مکرمہ کی فضاء ایسی زیادہ خلاف تھی کہ کوئی آنے والا نام لے کر پوچھنے میں بھی خطرہ محسوس کرتا تھا۔