ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2009 |
اكستان |
|
معتبر ہے یا اُن کافروں کی بنائی ہوئی؟ اِس قوم کی امتیازی شان رنگ و نسل زبان اور ملک نہیں ہے اِس کی امتیازی شان یُحِبُّھُمْ وَ یُحِبُوْنَہ ہے کہ یہ قوم اللہ تعالیٰ سے محبت کرتی ہے اور اللہ تعالیٰ اِس سے محبت کرتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے پہلے یُحِبُّھُمْ فرمایا کہ ا للہ اُن سے محبت کرتا ہے مگر کیسے معلوم ہو کہ اللہ اُن سے محبت کر رہا ہے؟ یُحِبُّھُم کی ضمیر ھُمْ کے اَفراد کو اَب متعین نہیں کیا جا سکتا کیونکہ نزول ِ وحی بند ہوچکا، اَب جرئیل علیہ السلام نہیں آسکتے۔ نصِ قطعی سے تعین نہیں ہوسکتا کہ فلاں فلاں اشخاص سے اللہ کو محبت ہے پھر اللہ تعالیٰ کی محبت کے اِدراک کا اَب کونسا تھرما میٹر ہے، کون سی دلیل ہے کیونکہ اللہ کی محبت اپنے بندوں کے ساتھ مخفی ہے لیکن اللہ کے بندوں کی محبت اللہ کے ساتھ تو ظاہر ہے۔ عشقِ من پیدا و دلبر نا پدید میرا عشق تو ظاہر ہے لیکن میرا محبوب پوشیدہ ہے میرا عشق یعنی وضو کرنا نماز پڑھنا روزہ رکھنا طواف کرنا جہاد کرنا سرکٹانا سب ظاہر ہے مگر محبوب پوشیدہ ہے۔ در دو عالم ایں چنیں دلبر کہ دید دونوں عالم میں ایسا محبوب د کھاؤ کہ جس کو دیکھا بھی نہیں لیکن ایک ہی دن میں ستر شہید اُحد کے دامن میں لیٹے ہوئے ہیں۔ اِسی طرح آج بھی بندوں کی محبت تو میرے ساتھ ظاہر ہو رہی ہے لیکن اے دُنیا والو یُحِبُّھُمْ کا علم تمہیں کیسے ہوگا تم کیسے جانو گے کہ میں بھی اُن سے محبت کرتا ہوں کیونکہ نزول ِ وحی بند ہو چکا لہٰذا آگے دلیل موجود ہے وَیُحِبُّوْنَہ جو لوگ مجھ سے محبت کر رہے ہیں تو سمجھ لو کہ میں بھی اُن سے محبت کررہا ہوں جس پر یُحِبُّوْنَہ کے آثار دیکھو تو سمجھ لو کہ یہ میری ہی محبت کا فیضان ہے۔ یُحِبُّھُمْ وَ یُحِبُوْنَہ اللہ تعالیٰ نے مضارع نازل فرماکر بتا دیا کہ میرے عُشاق حال میں بھی میرے باوفا رہیں گے اور مستقبل میں بھی میرے با وفا رہیں گے۔ یہی آیت دلالت کرتی ہے کہ اہل ِ محبت کی صحبت میں رہنا چاہیے تاکہ اللہ تعالیٰ کی دائمی وفاداری حاصل ہوجائے۔ اور اِس آیت کا نزول سارے عالَم کے عاشقوں میں رابطہ اور محبت میں اضافے کا ضامن ہے کیونکہ