ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2009 |
اكستان |
|
بو طلحہ رضی اللہ عنہ (اُن کے شوہر) باہر سے آکر اُن کا حال دریافت کیا کرتے تھے ایک دن اُس کا انتقال ہوگیا اور شام کو حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ آئے تو حضرت اُم سلیم رضی اللہ عنہانے اُن پر ظاہر نہیں کیا کہ بچہ کا اِنتقال ہوگیا تاکہ سن کر پریشان نہ ہوں اور پریشانی میں کھانا نہ کھا سکیں بلکہ جب اُنہوں نے دریافت کیا کہ بچہ کیسا ہے؟ تو یہ جواب دیا کہ اَب تو سکون ہے (اور واقعی موت سے بڑھ کر کیا سکون ہوگا) یہ سن کر اُنہوں نے کھانا کھایا اور رات کو بیوی کی طرف میلان بھی ہوا۔ بیوی نے بے انتہا صبر کیا کہ اِس سے بھی اِنکار نہ کیا۔جب صبح ہوئی تو کہا کہ میں آپ سے ایک مسئلہ پوچھتی ہوں کہ اگر کسی نے ہم کو کوئی چیز بطور ِ امانت کے دی ہو پھر بعد میں وہ امانت کو واپس لینا چاہے تو کیا کرنا چاہیے؟ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ یہی چاہیے کہ جب مالک اُس کو واپس لینا چاہے تو بڑی خوشی کے ساتھ واپس کردیا جائے۔ حضرت اُم سلیم رضی اللہ عنہانے کہا کہ تو پھر اپنے بچہ پر صبر کرو اور خوشی کے ساتھ اُس کے دفن کرنے کا انتظام کرو کیونکہ خدا نے اپنی امانت لے لی ہے۔حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ بڑے جھلائے (یعنی غصہ ہوئے ) کہ تم نے رات ہی کو کیوں خبر نہ کی ۔کہا کیا ہوتا رات کو دفن کرنے میں مصیبت ہوتی اور رات بھر پریشان رہتے کھانا بھی نہ کھاتے اِس لیے رات کو خبر نہ کی۔ رسول اللہ ۖ کے پاس حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ گئے۔ تو آپ ۖ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کو اُم سلیم کا عمل بہت پسند آیا اور میں اُمید کرتا ہوں کہ آج رات تم دونوں کو خدا نے مبارک اَولاد عطا فرمائی ہے چنانچہ عبداللہ بن ابی طلحہ رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے جو بڑے عالم اور بڑے سخی صاحب ِاموال واَولاد تھے۔ حضرت اُم سلیم رضی اللہ عنہا نے سچ فرمایا کہ یہ اَولاد اللہ تعالیٰ کی امانت ہے۔ اِس کو وہ جب لینا چاہیں خوش ہوکر خدا کے حوالہ کردینا چاہیے۔ اِس پر شاید یہ سوال ہوگا کہ یہ اَمانت ہے تو پھر اللہ نے اِس کی اِتنی محبت کیوں دی ہے اگر محبت نہ ہوتی تو اِتنا غم بھی نہ ہوتا۔ اِس کا جواب یہ ہے کہ اِتنی محبت اِس وجہ سے دی ہے تاکہ پرورش ہو سکے کیونکہ بغیر محبت کے اِس کے پیشاب پاخانہ کو اُٹھانا اور اُس کی پرورش کرنا مشکل ہے۔اِسی لیے غیر کی اَولاد پالنا بہت دُشوار ہے۔ اور جب بچہ کی پرورش ہو چکتی ہے تو محبت میں بھی کمی ہونے لگتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے بیٹے کے ساتھ ویسی محبت نہیں ہوتی جیسی چھوٹے سے ہوتی ہے۔ غرض اَولاد کو بھی خدا کی چیز سمجھو کہ اُس کی اَمانت چند روز ہمارے پاس ہے پھر اِس کے فوت ہونے پر زیادہ(اَفسوس نہ ہوگا) کیونکہ پریشانی کی بنیاد تو یہی ہے کہ تم اُن کو اپنی چیز سمجھتے ہو (جاری ہے)