ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2009 |
اكستان |
کا سونا چاندی یا مال و اسباب پاکستان کو دینا پڑتا ہے اور اسٹیٹ بینک اُتنے ہی نوٹ چھاپتا ہے جتنا اُس کے پاس سونا چاندی یا مال و جائید اد و تمسکات ہوں۔ اگر نوٹ اِس سے زیادہ مثلادُگنے چھاپ دے تو روپیہ کی قیمت آدھی کرنی پڑجاتی ہے۔ تو معلوم ہوا کہ نوٹ ایک سرکاری دستاویزی کا غذ ہے حوالہ اور ہنڈی کی طرح اِس کا اَصل مال جس کا یہ حوالہ ہے اسٹیٹ بینک میں ہے۔ بغرض سہولت انگریز کے چلے جانے کے بعد بھی اس طریقہ کو باقی اور جاری رکھا گیا ہے۔ سونا چاندی باہر نہیں لایا گیا۔ مقصد یہ ہے کہ اِس طرح بیت لمال میں اَصل مال محفوظ رہے اَور اِس کے حوالے سے لوگ اَصل مال کے برابر فائدہ اُٹھاتے رہیں اور اِسے اصل سونے اور چاندی کے روپیہ اور اشرفی کی طرح چلاتے رہیں عام خریدو فروخت اور بڑی سے بڑی تجارت کرتے رہیں۔ اِس لیے یہ عام کاغذ کی طرح ہر گز نہیں ہے۔ لہٰذا اگر کوئی شخص کسی کودس کا نوٹ قرض دے کر یہ کہے کہ مجھے تم ایک ماہ بعد گیارہ روپے کا نوٹ دوگے تو یہ سود ہی ہوگا۔ فاضل بریلوی کا مسئلہ اور اجتہاد بالکل غلط ہے اور چونکہ نوٹ کی دُوسری عرفی رواجی حیثیت بھی ملحوظ رکھنی ضروری ہے کہ اِس سے اناج کپڑااَور ہر قسم کا سامان خریدا جاتا ہے حتی کہ سونا چاندی بھی، اِس لیے نوٹ پر نقدین یعنی سونا چاندی کا حکم بھی لگے گا اور زکوة فرض ہوگی۔ فاضل بریلوی کے پیرو کار بدعتی علماء اُن کی تعریفوں کے پُل باند ھتے ہیں اَور کہتے ہیں کہ اُن کا قلم محفوظ عن الخطا تھا۔ اُن سے غلطی ہوتی ہی نہ تھی۔ لیکن یہ میں نے اُن کی فقہی لغزش کی ایک مثال دی ہے۔ اُن کی اِس قسم کی لغزشیں اُن کی کتابوں میں بے حد وحساب موجود ہیں۔ اُنہوں نے اِن کو چھپانے کا یہ سہل طریقہ اختیار کیا کہ دُوسرے بڑے بڑے علماء ِ سنت پر الزام تراشی کی اَور اُمت ِ مسلمہ میں تفرقہ کا بیچ بویا اَور بر ِ صغیر کے متبعین ِ سنت علماء ِ دیوبند کو وہابی قرار دیا۔ ہوسکتا ہے کہ یہ لغزش انگریزوں کی حمایت کا نتیجہ ہو مسلمان نوٹوں پر سود حلال سمجھ کر چاندی کے سکے کے بجائے نوٹ پسند کرنے لگیں اَور انگریز ہندوستان سے بے حساب چاندی سمیٹ لے جائیں جس کی اُنہیں جنگ ِ عظیم اوّل کے بعد شدید ضرورت تھی اَور انگریزوں کی حمایت اِن کا جدّی ورثہ تھی۔ مولوی احمد رضاخاں کے پر داداحافظ کاظم علی خاں بریلوی نے انگریزی حکومت کی پولیٹکل خدمات انجام دیں (بحوالہ حیات اعلی