ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2009 |
اكستان |
|
اور حدیث ِ پاک میں بدعتی کے لیے سخت وعید آئی ہے۔ بدعت کی یہ نحوست بتلائی گئی ہے کہ جب کوئی قوم بدعت میں لگ جاتی ہے تو سنت اُٹھالی جاتی ہے پھر سنت نہیں لُٹائی جاتی ۔ آپ دیکھ لیں کہ بدعتی علماء نئے نئے مسئلے اُٹھا کر اُن کی پابندی کر رہے ہیں اور اتفاق و اتحاد کے فرض کو مٹا رہے ہیں۔ بھائی بھائی میں نفرت و نفاق کا بیچ بو رہے ہیں۔ بدعت کی جو تعریف امام شافعی رحمة اللہ علیہ نے بیان فرمائی ہے وہ بدعت کی ایسی تعریف ہے جسے خود بدعتی علماء نے صحیح تسلیم کیا ہے اور فاضل بریلوی کے دَورمیں یہ انوار ِ ساطعہ اور براہین ِ قاطعہ میں ضبط تحریر میں بھی آچکی ہے لیکن اُنہوں نے کچھ لکھی اور کچھ چھوڑی ہے کیونکہ پوری بات لکھ دیتے تو اُسی تعریف کے رُو سے وہ خود بدعتی قرار پاتے۔ پوری عبارت یہ ہے جو علماء اہل ِسنت کے افادہ کے لیے درج کی جاتی ہے۔ وَرَوَی الْبَیْھَقِیُّ بِاِسْنَادِہ فِیْ مَنَاقِبِ الشَّافِعِیِّ عَنِ الشَّافِعِیِّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ اَلْمُحْدَثَاتُ مِنَ الْاُمُوْرِ ضَرْبَانِ اَحَدُھُمَا مَا اُحْدِثَ مِمَّا یُخَالِفُ کِتَابًا اَوْ سُنَّةً اَوْ اَثَرًا اَوْ اِجْمَاعًا فَھٰذِہِ الْبِدْعَةُ الضَّلَالَةُ۔ وَالثَّانِیَةُ مَا اُحْدِثَ مِنَ الْخَیْرِ لَا خِلَافَ فِیْہِ لِوَاحِدٍ مِّنَ الْعُلَمَائِ وَھٰذِہ مُحْدَثَة غَیْرُ مَذْمُوْمَةٍ وَقَدْ قَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ قِیَامِ شَھْرِ رَمَضَانَ نِعْمَةُ الْبِدْعَةِ ھٰذِہ یَعْنِیْ اَنَّھَا مُحْدَثَة لَمْ تَکُنْ وَاِذَا کَانَتْ لَیْسَ فِیْھَا رَدّ لِمَا مَضَا۔ ھٰذَا آخِرُ کَلَامِ الشَّافِعِیِّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ ( تَھْذِیْبُ الْاَسْمَائِ وَاللُّغَاتِ لِلْاِمَامِ النَّوَوِیِّ رَحِمَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی اَلْجُزْئُ الْاَوَّلُ مِنَ الْقِسْمِ الثَّانِیْ۔(حرف الباء ص ٢٢) (یعنی ) امام بیہقی رحمة اللہ علیہ نے امام شافعی رحمة اللہ علیہ سے اپنی سند کے ساتھ اپنی کتاب مناقب ِ شافعی میں لکھا ہے کہ اُنہوں نے اِرشاد فرمایا ہے کہ دین میں (دین کا کام سمجھ کر)نئی چیزوں کی اِیجاد دو قسم کی ہے ایک وہ محدث (نئی ایجاد) جو کتاب اللہ اور سنت ِ رسول اللہ ۖ یا اقوال ِ صحابہ یا اجماع کے مخالف ہو تو یہ وہ بدعت ہے جو ضلالت (گمراہی ) ہے۔ دُوسری قسم وہ ایسی نیکی کی ایجاد ہے جو سب علماء نے مل کر طے