ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2006 |
اكستان |
|
یک روایت میں ہے : مَا اُنْفِقَتِ الْوَرِقُ فِیْ شَیْئٍ اَحَبَّ اِلَی اللّٰہِ مِنْ نَّحْرٍ یُّنْحَرُ فِیْ یَوْمِ عِیْدٍ (رواہ الطبرانی فی الکبیر والاصبہانی، (الترغیب والترھیب ج ٢ ص ١٠٠) ''عید کے دن قربانی کا جانور ذبح کرنے کے لیے پیسے خرچ کرنا اللہ تعالیٰ کے یہاں اور چیزوں میں خرچ کرنے سے زیادہ افضل ہے ۔'' (طبرانی) ایک اور روایت میں ہے : قَالَ اَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ مَا ھٰذِہِ الْاَضَاحِیْ؟ قَالَ ' سُنَّةُ اَبِیْکُمْ اِبْرَاھِیْمَ صَلَوَاتُ اللّٰہِ عَلَیْہِ وَسَلَامُہ' '' قَالُوْا فَمَالَنَا فِیْھَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ؟ قَالَ ''بِکُلِّ شَعْرَةٍ حَسَنَة '' قَالُوْا فَالصُّوْفُ قَالَ ''بِکُلِّ شَعْرَةٍ مِّنَ الصُّوْفِ حَسَنَة'' (رواہ ابن ماجہ والحاکم وغیرھما ، الترغیب والترھیب ج ٢ ص ٩٩) ''ایک مرتبہ حضرات صحابہ نے سوال کیا یا رسول اللہ! اِن قربانیوں کی کیا حقیقت ہے؟ آپ ۖ نے فرمایا یہ طریقہ ہمارے باپ ابراہیم علیہ السلام سے جاری ہوا ہے اور یہ اُن کا طریقہ چلا آرہا ہے (جس کی اتباع کا ہم کو حکم دیا گیا ہے) صحابہ نے عرض کیا ہم کو اِن میں کیا ملتا ہے؟ فرمایا ''ہر بال کے بدلہ ایک نیکی''! عرض کیا اُون والے جانور یعنی بھیڑ دنبہ کے ذبح پر کیا ملتا ہے؟ فرمایا'' اُون میں سے ہر بال کے بدلہ ایک نیکی ملتی ہے۔'' (ابن ماجہ، حاکم) فائدہ : ایک روایت میں ہے کہ قربانی کے ذبح ہونے کے وقت زمین پر پہلا قطرہ گرنے سے قربانی کرنے والے کے گزشتہ (صغیرہ گناہ) معاف کردیے جاتے ہیں (بزار، ابن حبان، ترغیب ترہیب ج٢ ص ١٠٠) ایک اور روایت میں ہے کہ قربانی کا خون بظاہر اگرچہ زمین پر گرتا ہے لیکن درحقیقت وہ اللہ عز و جل کی حفاظت اور نگہبانی میں داخل ہوجاتا ہے (ترغیب ترہیب ج٢ ص ١٠٠ بحوالہ طبرانی فی الاوسط) ۔ایک روایت میں ہے کہ جو شخص خوش دلی اور اخلاص کے ساتھ اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے قربانی کرتا ہے تو یہ قربانی اُس کے لیے آگ (یعنی دوزخ سے) آڑ بن جاتی ہے۔ (ترغیب ترہیب ج٢ ص ١٠٠ بحوالہ طبرانی فی الکبیر)