یات پوری ہوں یا نہ ہوں مگر لباس بالکل اعلیٰ ہو، سامان آرائش اعلیٰ ہو، یہ سوچ کی تبدیلی فی الواقع عقلی نابالغی کی دَین ہے، تصنع وتکلف کی یہی صورتحال ہر جگہ ہے، سرکاری ملازمت، تجارت، تقریبات، تعزیت وتہنیت ہر جگہ یہی تصنع اور دکھاوا ہے، کہیں بھی سادگی اور بے تکلفی نہیں ہے، اور اب تو ادب ولٹریچر میں بھی اس تصنع کا دور دورہ ہے، کوئی شعبہ اس سے محفوظ نہیں رہا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جو کچھ ہورہا ہے فطرت سے بغاوت اور اس کی مخالفت ہے، فطرت سادگی پسند ہوتی ہے، وہ یہ چاہتی ہے کہ صاف، بے لاگ اور دو ٹوک گفتگو ہو، سوچ صاف ستھری ہو، ظاہر کی آرائش میں اعتدال ہو، ذہن ودماغ کبر اور بڑکپن کی سوچ سے دور رہیں ، سادگی میں اصل لذت ہے، اس میں دلی راحت بھی ہے اور جسمانی صحت بھی، اسراف سے دوری بھی ہے اور اس بات کا مکمل شعور بھی کہ مادّی زندگی ہی سب کچھ نہیں کہ اس کے پیچھے جی جان سے لگ جایا جائے، بلکہ روحانی خوبصورت زندگی بھی اس کی اولین مستحق ہے کہ اس پر توجہ دی جائے، اس کو وقت دیا جائے اور اس کو سنوارا اور سجایا جائے۔
مادّیت وروحانیت کے مابین توازن کے اسی فقدان نے انسان کو بگاڑ کی آخری سرحد پر لے جاکر کھڑا کردیا ہے، اور اس بگاڑ کو دور اسی طرح کیا جاسکتا ہے کہ یہ توازن پیدا کیا جائے اور روحانیت کو اولین درجہ دیا جائے اور مادّیت کو بقدرِ ضرورت اختیار کرنے کا ذہن بنایا جائے، یہی مسئلہ کا حل بھی ہے اور بگاڑ سے نجات کا ذریعہ بھی۔
mvm