تقویٰ یہی ہے کہ گناہوں سے اپنا دامن نہایت احتیاط اور ہوش مندی سے بچالیا جائے، قرآن کی مختلف آیات میں خدا ترسی کا حق ادا کرنے، حسب الامکان اللہ سے ڈرنے، ہمیشہ لرزاں وترساں رہنے، خود احتسابی، زندگی کی آخری سانس تک خوف خدا کو ملحوظ رکھنے، اور احکام اسلام کو انجام دینے کا بار بار حکم دیا گیا ہے۔
اورپھر جن دلوں میں خوفِ خدا جاگزیں ہوجاتا ہے، ان کے لئے جنت، انعامات الٰہی، رضائے خداوندی کی بشارتیں ہیں ، خدا ترسی کی برکتوں ، ثمرات اورفوائد کا کوئی شمار نہیں ، ایک فائدہ یہی ہے کہ منجانب اللہ آسمانی اور زمینی برکتوں کے دروازے کھل جاتے ہیں ، مشکلات ومصائب میں نجات کی راہ مل جاتی ہے، بے سان وگمان رزق عطا ہوجاتا ہے، ناامیدی میں امید کی کرن نمودار ہوتی ہے، مایوسی کے عالم میں خوش خبری ملتی ہے، حق وباطل میں تمیز کرنے کی صلاحیت، قوت اورشان پیدا ہوجاتی ہے، اللہ کی اعانت وامداد ونصرت وحفاظت ہمہ وقت سایہ فگن رہتی ہے، دشمن کی گزند سے پناہ رہتی ہے، خطاؤں اور لغزشوں کے بدل کے طور پر اعمالِ حسنہ کی منجانب اللہ توفیق عطا ہوتی ہے، آخرت میں تمام گناہوں کی مغفرت کا وعدہ بھی ہے، اللہ کی معیت نصیب ہوتی ہے۔
خدا ترسوں کے نمایاں اوصاف وعلامات یہ ہوتی ہیں کہ وہ کامل الایمان ہوتے ہیں ، تمام طاعات کی انجام دہی کرتے ہیں ، وعدہ اور عہد وفا کرتے ہیں ، صبر واستقلال کے جوہر سے آراستہ ہوتے ہیں ، خوشی وناخوشی، تنگی وفراخی، کشاکش، وکشائش، بیماری وتندرستی، سفر وحضر، شب وروز، صبح وشام ہر موقع ومرحلہ پر وہ راست باز، عبادت گزار اور اطاعت شعار ہوتے ہیں ، غصہ پی جاتے ہیں ، تحمل سے کام لیتے ہیں ، اپنی خطاؤں پر نادم وپشیمان اور بصدق قلب تائب ہوتے ہیں ۔
خدا ترسی اورتقویٰ کا اصل تعلق دل سے ہوتا ہے، خدا ترس وہی ہے جس کا دل اللہ