زبان کی آفات کا دائرہ بے حد وسیع ہے، جس میں شرکیہ کلمات، جھوٹ، غلط فتویٰ، ناحق فیصلہ، غیر اللہ کے لئے نذر ومنت، ناشکری، جھوٹی قسم، غیر اللہ کے نام سے قسم، تقدیرکا انکار، قولی بدعات، جھوٹی گواہی، تہمت، دوسرے کی پردہ دری اور معایب کی تشہیر، افترا پردازی، دشنام طرازی، چغل خوری، غیبت، افشائِ راز، مذاق واستہزاء، گانا، ناحق مذاق، لعن طعن، نوحہ خوانی، بیجا تعریف، وغیرہ سبھی شامل ہیں ، اور احادیث میں ان سب کی نام بہ نام صراحت کے ساتھ ممانعت اورمذمت کا مضمون جا بجا آیا ہے۔
زبان کی بے احتیاطیوں سے نجات کا طریقہ اور علاج یہ ہے کہ آدمی اللہ کی عظمت کا تصور کرے، اس کی قدرتِ کاملہ پر یقین کرلے، ثواب وعذاب کا علم اسے ہو، موت یاد کرے، جن آیات واحادیث میں زبان کی حفاظت کا حکم ہے انہیں بغور دیکھے اور پڑھے اور دل میں بٹھائے، نماز کا اہتمام کرے، دعاؤں میں لگ جائے، خاموشی اختیار کرلے، بے ضرورت نہ بولے، جب بولے بھلی بات بولے، اہل تقویٰ کی ہم نشینی اختیار کرے، حقوق العباد کی ادائیگی کے لئے سرگرم ہوجائے، نیک کاموں میں مشغول ہوجائے، صبر کو اپنا شعاربنائے، اور خلوت گزینی کا عادی ہونے کی کوشش کرے۔
زبان کی حفاظت کا اہتمام کرنے اوراحتیاط برتنے کے بے شمار فائدے ہیں ، سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اللہ کی خوشنودی میسر آتی ہے جو ہر مسلمان کا اولین مطلوب ہے، زبان کے سلسلے میں محتاط آدمی زبانِ نبوت میں سب سے افضل مسلمان ہے، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بے انتہا قریب ہے اور ان کا محبوب اور لاڈلا ہے، خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لئے جنت کی ضمانت لی ہے، اور عذاب الٰہی سے نجات کا مژدہ سنایا ہے، اور اسے افضل ترین مجاہد بتایا ہے۔
اس کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ خلقِ خدا کے ساتھ تعلقات خوشگوارہوتے ہیں ، باہم