معلوم ہوتا ہے کہ جب حیا ختم ہوجاتی ہے تو پھر آدمی سب کچھ کرسکتا ہے، اسلام میں حیاء کا بہت اونچا مقام ہے۔
ارشاد نبوی ہے:
’’حیاء ایمان کا عظیم شعبہ ہے اور اعلیٰ اخلاق میں سے ہے‘‘۔ (ابن ماجہ)
یہ بات بالکل مشاہد ہے کہ ڈش وٹی کے ذریعہ حیاء ختم ہوجاتی ہے جس کے برے اثرات یہ ظاہر ہوتے ہیں کہ عورتوں میں بے حجابی آجاتی ہے، پردہ بوجھ سمجھا جانے لگتا ہے، دوسرے ساتر لباسوں کا اہتمام باقی نہیں رہ جاتا، ٹی وی اور فلموں کے عریاں مناظر اور باریک لباسوں کی تقلید کا خیال جاگزیں ہوجاتا ہے، احادیث میں ان عورتوں کو مستحق لعنت اور جہنمی بتایا گیا ہے جو لباس ایسا پہنتی ہیں جن سے جسم جھلکتا ہے اور نظر آتا ہے، اور اعضاء ظاہر ہوتے ہیں ۔
بے حیائی کے نتیجہ میں خیر وشر اورنیک وبد کی تمیز اٹھ جاتی ہے، اجنبی مردوں سے اختلاط معیوب نہیں سمجھا جاتا بلکہ اسے مہذب اور شائستہ عمل باور کیا جاتا ہے، اجنبی مردوں سے گفتگو کرتے وقت نزاکت اور نرمی ظاہر کی جاتی ہے، قرآنی احکام کی صریح خلاف ورزی کی جاتی ہے۔ قرآنِ کریم میں صراحۃً ازواجِ مطہرات کو بلا واسطہ اور تمام عورتوں کو بالواسطہ حکم ہے کہ:
یَا نِسَآئَ النَّبِیِّ! لَسْتُنَّ کَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَآئِ، إِنِ اتَّقَیْتُنَّ، فَلاَ تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِہٖ مَرَضٌ وَّقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفاً۔
(الاحزاب/۳۲)
ترجمہ: اے نبی کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو، اگر تم اللہ سے ڈرنے والی ہو تو دبی زبان سے بات نہ کیا کرو کہ دل کی خرابی کا مبتلا کوئی شخص لالچ میں پڑجائے، بلکہ صاف سیدھی بات کرو۔