ایک حدیث میں وارد ہوتا ہے کہ:
’’ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا غیبت کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’ذِکْرُکَ أَخَاکَ بِمَا یَکْرَہُ‘‘ کہ تو کسی شخص کا ذکر اس طرح کرے کہ وہ سنے تو اسے ناگوار ہو۔ اس نے عرض کیا یا رسول اللہ! اگرچہ میری بات حق ہو؟ آپ نے جواب دیا اگر تیری بات باطل ہو تب تو یہ بہتان ہے‘‘۔ (مؤطا امام مالک)
احادیث میں بہت صاف فرمادیا گیا ہے کہ:
’’بدترین بہتان کسی مسلمان کی عزت پر ناحق حملہ کرنا ہے‘‘۔ (ابوداؤد)
قرآن کریم کی سورۂ حجرات میں اہل ایمان کو ان کی معاشرتی اور اجتماعی زندگی میں فساد برپا کرنے والی برائیوں سے بچنے کی بڑے بلیغ اسلوب میں تاکید فرمائی گئی ہے، ان میں تمسخر اوراستہزاء، طعنہ زنی، برے القاب سے پکارنے، بدگمانی، پوشیدہ عیب کا سراغ لگانے اور غیبت کا نام بہ نام ذکر کرکے ان کی شناعت ظاہر کی گئی ہے۔
حجۃ الوداع کے خطبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات بڑی خصوصیت سے فرمائی تھی کہ مسلمان کا خون مال اور آبرو تینوں محترم ہیں اور ان میں سے کسی پر بھی کسی نوع کا حملہ ناروا ہے۔
اجتماعی زندگی کے لئے حسد اور بغض بھی سمّ قاتل ثابت ہوتے ہیں ، ایک حدیث میں فرمایا گیا:
’’تمہاری طرف بھی پہلی قوموں کا مرض چپکے سے چل پڑا ہے، اوروہ حسد اور بغض ہے، یہ دین کو مونڈ دینے والی چیزیں ہیں ‘‘۔ (مسند احمد)
بلکہ اہل ایمان کو ان امور کے اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے جو باہمی تعلقات کو خوشگواربنائیں اور اجتماعیت کی روح پیدا کریں ، چنانچہ خوش گمانی، اپنے بھائی کی پردہ داری،