وتلقین کے لئے تدریج سے کام لیا جائے، مناسب ماحول مہیا کیا جائے، ان سے مایوس نہ ہوا جائے، ترغیب وتشویق کے پہلو کو زیادہ اہمیت دی جائے اورسلبی پہلو اور تشدد سے آخری حد تک گریز کیا جائے، تشدد اور سلبی پہلو کا اثر بچوں کی نفسیاتی صحت، عقلی، لسانی، جذباتی اور جسمانی نشو ونما پر بہت گہرا پڑتا ہے۔
اب اگر بچپن کے اس دور میں جو فارغ البالی اور صالح تربیت حاصل کرنے کا دور ہوتا ہے بچہ کو کام میں لگادیا جائے، پرتشدد اور سلبی رویّہ اختیار کیا جائے تو اس کے نفسیاتی دور رس ودیر پا اثرات آئندہ کی انفرادی واجتماعی زندگی پر نمایاں ہوتے ہیں ، اور اس وقت ان پر کنٹرول بے حد مشکل ثابت ہوتا ہے۔
ظلم وتشدد بچہ کے دل میں معاشرتی اقدار سے بغاوت کا تخم ڈال دیتا ہے، پھر وہ خیر کی راہ سے ہٹ کر شر کی راہوں کو چن لیتا ہے، سلبی رویہ اسے تخریبی کاموں میں مشغول کردیتا ہے۔
ظالم وجابر باپ، سخت وتنگدل اوربے رحم استاذ، جفا شعار وستم پیشہ مالک وذمہ دار کے سلبی پر تشدد روّیوں کے پس منظر میں اگر باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو عہدِ طفولیت کے پر تشدد سلبی سلوک اور غلط کج تربیت کی جھلک صاف نظر آتی ہے۔
جو غلط فکر افراد آج کے بچوں کے ساتھ ظالمانہ، وحشیانہ اورنامنصفانہ سلوک روا رکھتے ہیں وہ شاید یہ بھول جاتے ہیں کہ یہی بچے کل بڑے ہوکر اس کا جواب اس سے زیادہ تشدد سے دیں گے، اور پھر وہ معاشرہ کا سکون غارت کریں گے، سلیقہ وتہذیب سے اپنی محرومی کا انتقام وہ معاشرہ کو اطمینان سے محروم کرکے لیں گے، انہیں ان کے اپنے حقوق سے محروم کیا گیا تھا اب وہ دوسروں کو ان کے حقوق سے محروم کریں گے، وہ ہرچیز پر حملہ آور ہوں گے، پھر نہ انہیں قانون روک سکے گا اور نہ مذہب اور نہ قید وبند، اس لئے کہ وہ قانون کے احترام سے ناآشنا، دین سے نابلد اورقید وبند چشیدہ ہیں ۔