وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
احساس دوبارہ بیدار وزندہ کرنے کی صورت یہی ہے کہ گناہوں سے دامن کو الجھنے نہ دیا جائے، کسی مصلح ومربی کی تربیت میں کچھ وقت گذارا جائے، کتاب وسنت کا سنجیدگی سے مطالعہ کیا جائے۔
دعوتی کاموں کے بے اثر ہونے کی ایک اور وجہ ہے اور وہ داعی کی ذاتی بے عملی اور دولتِ اخلاص سے محرومی ہے، دعوتی کام کرنے والے افراد اگر خود اپنی دعوت میں اخلاص وبے لوثی پیدا کرلیں ، اپنی اصلاح کے بعد دوسروں کی اصلاح کا مشن شروع کریں اور ان کی دعوت ان کے اندرون کی صد ااور ان کے دل کی آواز ہو تو اس کی تاثیر بالکل یقینی ہے، ماضی میں دعوتی کاموں کے مؤثر ہونے کا ایک اہم سبب داعی کا اپنا عمل واخلاص تھا، چنانچہ اس سے زندگیاں بدلیں ، معاشرہ کی کایا پلٹی، انقلاب آیا اور دنیا نے دیکھ لیا، واقعہ یہی ہے کہ ؎
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پَر نہیں طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے
اخلاص سے محرومی کا نتیجہ آخرت میں کیا ہوگا؟ حضرت ابوہریرہؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے کہ:
إِنَّ أَوَّلَ النَّاسِ یُقْضیٰ عَلَیْہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ رَجُلٌ اُسْتُشْہِدَ، فَأُتِیَ بِہٖ، فَعَرَّفَہٗ نِعْمَتَہٗ، فَعَرَفَہَا، فَقَالَ فَمَا عَمِلْتَ فِیْہَا؟ قَالَ: قَاتَلْتُ فِیْکَ حَتّٰی اسْتُشْہِدْتُّ قَالَ کَذَبْتَ وَلٰکِنَّکَ قَاتَلْتَ لِأَنْ یُّقَالَ جَرِئٌ، فَقَدْ قِیْلَ، ثُمَّ أُمِرَ بِہٖ فَسُحِبَ عَلَی وَجْہِہٖ حَتّٰی أُلْقِیَ فِی النَّارِ۔ (صحیح مسلم)
ترجمہ: قیامت کے روز سب سے پہلے جس کے خلاف فیصلہ سنایا جائے