سعادتوں اور کامرانیوں سے نہیں روک پاتے اگر انسان ہمت، قوتِ ارادی اورقوتِ فکر وعمل سے مالا مال ہو۔
اس سلسلہ میں یہ بات قابل غور ہے کہ انسان کو کبھی مایوس اور قنوطیت کا شکار نہ ہونا چاہئے، اورہمیشہ اپنے مستقبل کے بارے میں بہتری اور کامیابی کی توقع رکھنی چاہئے، اسے کبھی یہ خیال کرکے افسردہ نہ ہونا چاہئے کہ بہتری دوسرے کے حصہ میں مقدر کردی گئی ہے اور کامیابی دوسرے کے نصیب میں لکھ دی گئی ہے ، اور کامیابی میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہے، بلکہ اس کا عقیدہ یہ ہونا چاہئے کہ اللہ کی رحمت اس پر بھی سایہ فگن ہوگی، مستقبل میں وہ عنایتِ الٰہی سے ضرور بہرہ مند ہوگا، خدا کے ہاں دیر ضرور ہے اندھیر نہیں ۔ قرآن کہتا ہے:
لَا تَیْأَسُوْا مِنْ رَوْحِ اللّٰہِ، إِنَّہٗ لَا یَیْأَسُ مِنْ رَوْحِ اللّٰہِ إِلاَّ الْقَوْمُ الْکٰفِرُوْنَ۔ (یوسف: ۸۷)
ترجمہ: اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوجاؤ، اللہ کی رحمت سے تو بس کافر ہی مایوس ہوا کرتے ہیں ۔
بس عزم کرکے بے راہ روی اور رحمتِ الٰہی کے نزول میں حائل گناہوں کو ترک کردے، اللہ کی رحمت بلا تاخیر اس کی طرف متوجہ ہوگی، یہ اللہ کا وعدہ ہے۔ ’’ اور اللہ سے زیادہ اپنے وعدے کو نبھانے والا کون ہوسکتا ہے‘‘؟۔
اگر یہ خیال انسان کے دل میں جاگزیں ہوجائے کہ اس کا مستقبل بے حد تاریک ہے، روشنی کی کوئی کرن کبھی نمودار ہونے کی بالکل امید نہیں ہے، کوئی کامیابی کبھی اس کے دامن میں آنے کی نہیں ہے، تو یہ خیال زہر قاتل ہے جو انسان کو بے حد کمزور، پست حوصلہ، جامد اور مردہ بنادیتا ہے، اس کے بالمقابل اگر انسان کامیابی وبھلائی کا امیدوار ومنتظر ہو، حتی المقدور کوشاں ہو، وسائل واسباب کے استعمال کے لئے حسبِ امکان ہاتھ پاؤں مارتا ہو تو