﷽
۞ عرضِ مؤلّف ۞
الحمدللّٰہ وکفیٰ وسلامٌ علیٰ عبادہ الّذین اصْطفیٰ أمّا بعد!
فن حدیث انتہائی عظیم الشّان اور رفیع المرتبت فن ہے اور کیوں نہ ہو کہ اس کی نسبت اُس ذاتِ گرامی کی طرف ہے جو مخلوق میں سب سے اعلیٰ واشرف ہے یعنی آقائے نامدار، سرورِ کونین، جناب محمّد رسول اللہﷺ! اور جس طرح یہ فن عظیم الشّان ہے اسی طرح اس سے اشتغال بھی بڑا مقدّس ومتبرّک عمل ہے۔ بڑے خوش بخت وبانصیب اور رشکِ خلائق ہیں وہ لوگ جنھوں نے حدیث کے پڑھنے پڑھانے اور اس کی نشر واشاعت میں اپنی عمریں کھپا دیں اور رسول اللہﷺ کی اس بشارت کے مستحق ٹھہرےکہ ”نضّر اللہ امرءًا سمع منّا شیئًا فبلّغہٗ کما سمعہٗ“ (رواہ الترمذی)
راقم آثم کو معہد ملّت مالیگاؤں میں جب مشکوٰۃ شریف جلد اوّل کی تدریس کی ذمّہ داری سونپی گئی تو اپنی بےبضاعتی وکم مائیگی کے باوجود بڑے ذوق وشوق اور جوش وخروش سے پڑھانے کی کوشش کی۔ اِسی دوران جب کتاب العلم کے ابواب شروع ہوئے اور طلبہ کے درمیان اُن کی تشریح کا موقع ملا تو ایک عجیب احساس ہوا کہ کہاں تحصیلِ علم اور اہلِ علم کے یہ فضائل اور کہاں ہمارے طلبۂ مدارسِ دینیہ کی بےتوجّہی اور غفلت! عجیب معاملہ ہے کہ ایک طرف کتب احادیث میں تحصیلِ علمِ دین اور اہلِ علم کے فضائل ومناقب ایک بحرِبےکراں کے مانند ہیں اور دوسری طرف اِس بحرِ بےکراں میں غوطہ لگانے والے ہمارے طلبۂ مدارس اور ہم خود بھی اِس حقیقت سے کما حقّہٗ واقف نہیں کہ یہ کِن لعل وگہر اور سیم وصدف سے بھرا ہوا ہے۔ جس