رات بھر نمازیں پڑھتے ہوں اور دن میں روزے رکھتے ہوں ۔ یہ فیصلہ خود رسول اللہﷺ کا ہے۔ دراصل دین کی تعلیم وتدریس کا یہ عمل ہے ہی اِس قدر اعلیٰ وارفع اور مقدّس ومعظّم!
لہٰذا! اِس فریضہ کو انجام دینے والوں کی زندگیوں میں نفل عبادتوں کی کمی دیکھ کر عامّۃ الناس انھیں عابدوں اور زاہدوں سے کمتر نہ سمجھیں ۔
طالبِ علم کو بھی چاہیئے کہ فراغت کے بعد درس وتدریس کے مشغلہ کو ضرور اختیار کرے، اِس لیے کہ اِس سے زیادہ مقدّس کوئی اور پیشہ نہیں اور خود رسول اللہﷺ بھی معلّم ومدرّس تھے۔
٭٭٭٭
۸ مخلص طالبِ علم اور انبیاء کے درمیان صرف ایک درجہ کا فرق ہوگا
۸ وَعَنِ الْحَسَنؒ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِﷺ: مَنْ جَاءَهُ الْمَوْتُ وَهُوَ يَطْلُبُ الْعِلْمَ لِيُحْيِيَ بِهِ الْإِسْلَامَ فَبَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّبِيِّينَ دَرَجَةٌ وَاحِدَةٌ فِي الْجَنَّةِ۔ (رواہ الدارمی)
(بحوالہ مشکوٰۃ: ۱/۳۶)
ترجمہ:حضرت حسن بصری (تابعی) مرسلاً روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص کو اِس حال میں موت آئے کہ وہ اِس مقصد سے علمِ دین حاصل کر رہا تھا کہ اُس کے ذریعہ اسلام کو زندہ کرے گا تو جنّت میں اُس کے اور انبیاء؊ کے درمیان صرف ایک درجہ کا فرق ہوگا۔