۲ طالبِ علم کے لیے جنت کی راہ آسان کردی جاتی ہے اور فرشتے اُس سے خوش ہوکر اُس کے پیروں تلے اپنا پَر بچھا دیتے ہیں ۔
۳ طالبِ علم کو محبوبیت کا وہ مقام حاصل ہوجاتا ہے کہ زمین وآسمان کی ہر مخلوق حتّی کے سمندر کی مچھلیاں بھی اُس کے لیے دعائے مغفرت کرتی ہیں ۔
۴ عالم باعمل کی فضیلت اور برتری علم سے تہی دامن عابد وزاہد پر ایسی ہے جیسی چودھویں رات کے چاند کو تمام ستاروں پر۔
۵ علمائے کرام انبیاء کے وارث ہیں جنھوں نے درہم ودینار کی نہیں نبیﷺ کے علم وفکر کی میراث پائی ہے۔
٭٭٭٭
۳ طلب علمِ دین فرضِ عین ہے
۳ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ؓ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِﷺ: طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلٰى كُلِّ مُسْلِمٍ وَوَاضِعُ الْعِلْمِ عِنْدَ غَيْرِ أَهْلِهِ كَمُقَلِّدِ الْخَنَازِيرِ الْجَوْهَرَ وَاللُّؤْلُؤَ وَالذَّهَبَ۔ (رواہ ابن ماجہ)
(بحوالہ مشکوٰۃ: ۱/۳۴)
ترجمہ: حضرت انسؓسے روایت ہے فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ نے ارشاد فرمایا کہ علمِ دین حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے اور نااہلوں اور ناقدروں کو علم سکھانا ایسا ہے جیسے سوّروں کو ہیرے موتی اور سونے کا ہار پہنانا۔
فائدہ:ہر مسلمان پر جس وقت جو فریضہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے عائد ہوتا ہےاُس فریضہ کا علم حاصل کرنا اس پر فرضِ عین ہے۔ اس میں کوتاہی کی تو گنہگار ہوگا۔ مثلاً بالغ ہوتے ہی