ندویؒکی زندگی کے چودہ سال ایسے گزرے ہیں کہ بینائی میں اس قدر ضعف تھا کہ براہِ راست نہ کچھ پڑھ سکتے تھے نہ لکھ سکتے تھے۔ اِس عالَم میں بھی تصنیف وتالیف، وعظ وتلقین اور مقالات لکھوانے کا سلسلہ جاری تھا۔
٭٭٭٭
۲۴ تحصیل علمِ دین کثرتِ نوافل سے بہتر ہے
۲۴ عَنْ أَبِيْ ذَرٍّ ؓ قَالَ قَالَ لِيْ رَسُولُ اللهِ ﷺ: يَا أَبَا ذَرٍّ! لَأَنْ تَغْدُوَ فَتَعَلَّمَ اٰيَةً مِنْ كِتَابِ اللهِ خَيْرٌ لَكَ مِنْ أَنْ تُصَلِّيَ مِائَةَ رَكْعَةٍ، وَلَأَنْ تَغْدُوَ فَتَعَلَّمَ بَابًا مِنَ الْعِلْمِ عُمِلَ بِهِ أَوْ لَمْ يُعْمَلْ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تُصَلِّيَ أَلْفَ رَكْعَۃٍ۔ (رواہ ابن ماجہ)
( بحوالہ منتخب احادیث ۲۶۹)
ترجمہ: حضرت ابوذر سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ نے مجھ سے ارشاد فرمایا: اے ابوذر! اگر تم صبح جاکر ایک آیت کلام اللہ شریف کی سیکھ لو تو سو (۱۰۰) رکعات نفل نماز پڑھنے سے بہتر ہے اور اگر تم علم کا ایک باب سیکھ لو خواہ اُس پر عمل ہو یا نہ ہو تو ہزار رکعات (۱۰۰۰) نفل نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔
فائدہ:علمِ دین حاصل کرنے کا اجر وثواب نفل عبادتوں کے انجام دینے سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ مضمون متعدّد احادیث میں گزر چکا۔ یہاں ایک خاص مضمون کا اضافہ ہے، وہ یہ کہ اگر علم پر عمل کرنے کا موقع نہ بھی ملے تب بھی اس علم کا حصول سینکڑوں رکعات نمازِ نفل سے افضل ہے۔