نماز کا علم حاصل کرنا اور صاحبِ نصاب ہوتے ہی زکوٰۃ کا علم حاصل کرنا فرضِ عین ہوگا۔ اِس لیے کہ اس کے بغیر وہ اس فریضہ کو صحیح طور پر انجام نہ دے سکے گا۔ البتّہ تمام علومِ شرعیہ کا حاصل کرنا اور دین میں تفقّہ پیدا کرنا ”فرضِ کفایہ“ ہے۔ یعنی ہر شہر اور ہر علاقہ میں چند ایسے افراد ہوں جو علومِ شرعیہ سے اچھی طرح واقفیت رکھتے ہوں ۔ اگر پوری پوری بستی اور علاقہ میں کوئی بھی عالمِ دین نہ ہوتو سب گنہگار ہوں گے۔
علم کی ناقدری بڑا گناہ ہے اور علم کی ناقدری یہ ہے کہ طالبِ علم حصولِ علم میں خاطر خواہ محنت نہ کرے، اپنے علم پر عمل نہ کرے، اساتذہ کا، کتابوں کا اور وسائلِ علم کا ادب نہ کرے، گناہوں اور معصیتوں میں مبتلا رہے اور توبہ واستغفار نہ کرے، جاہ طلبی اور حصولِ دنیا کے لیے علم حاصل کرے وغیرہ۔ ایسے ناقدروں اور نااہلوں کو علم سکھانے کا کوئی فائدہ نہیں کہ وہ علم حاصل کرنے کے بعد بھی فسق وفجور اور دنیا طلبی میں لگے رہیں گے، جیسے خنزیر کو اگر سونے چاندی اور ہیرے موتی کے ہار بھی پہنا دیے جائیں تب بھی وہ غلاظت اور گندگی میں ہی رہنا پسند کرے گا۔
٭٭٭٭
۴ طالبِ علم اللہ کے راستہ میں ہوتا ہے
۴ وَعَنْ أَنَس ؓ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِﷺ: مَنْ خَرَجَ فِي طَلَبِ العِلْمِ فَهُوَ فِي سَبِيلِ اللهِ حَتّٰى يَرْجِعَ۔ (رواہ الترمذی)
(بحوالہ مشکوٰۃ: ۱/۳۴)
ترجمہ: حضرت انسؓسے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص علمِ دین حاصل کرنے کے لیے نکلے وہ اللہ کے راستہ میں ہے جب تک واپس نہ آجائے۔
فائدہ:طالبِ علم جب حصولِ علم کی نیت سے اپنے گھر سے نکلتا ہے تو وہ مجاہد فی سبیل اللہ کی