اِس افضلیت اور برتری کی وجہ بالکل ظاہر ہے کہ عبادتوں اور ریاضتوں کا فائدہ آدمی کی اپنی ذات تک محدود رہتا ہے۔ جب کہ علمی مشاغل کا نفع پوری امّت کو پہنچتا ہے۔
٭٭٭٭
۱۲ طلبہ کے حق میں حضورﷺ کی وصیّت
۱۲ عَنْ أَبِي هَارُونَ العَبْدِيِّؒ عَنْ أَبِي سَعِيدِ ۿۨ الخُدْرِيِّؓ عَنِ النَّبِيِّﷺ قَالَ: يَأْتِيكُمْ رِجَالٌ مِنْ قِبَلِ المَشْرِقِ يَتَعَلَّمُونَ فَإِذَا جَاۗءُوْكُمْ فَاسْتَوْصُوْا بِهِمْ خَيْرًا۔ قَالَ: فَكَانَ أَبُو سَعِيدٍ إِذَا رَآنَا قَالَ: مَرْحَبًا بِوَصِيَّةِ رَسُولِ اللهِﷺ۔ (رواہ الترمذی)
(بحوالہ منتخب احادیث ۲۷۳)
ترجمہ: حضرت ابوہارون عبدی (تابعی) سے روایت ہے کہ حضرت ابوسعید خدریؓنے فرمایا کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مشرق کی جانب سے لوگ تمھارے پاس علمِ دین سیکھنے آئیں گے، لہٰذا جب وہ تمھارے پاس آئیں تو میری وصیّت ہے کہ تم اُن کے ساتھ بھلائی کا معاملہ کرنا۔ حضرت ابوسعید خدریؓکے شاگرد ابوہارون عبدیؒکہتے ہیں کہ جب حضرت ابوسعید خدریؓہمیں دیکھتے تو فرماتے: خوش آمدید اُن لوگوں کو جن کے بارے میں رسول اللہﷺ نے ہمیں وصیّت فرمائی۔