کرنے کی توفیق عطا فرمائی اور دوسرا وہ شخص ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے علمِ دین عطا کیا ہو اور وہ اُس کے مطابق زندگی گزارتا ہو اور دوسروں کو بھی علمِ دین سکھاتا ہو۔
فائدہ:”حسد“ کہتے ہیں کسی کے حق میں زوالِ نعمت کی تمنّا کرنے کو۔ یہ بالاتفاق حرام ہے۔ البتّہ حسد کا لفظ غبطہ یعنی رشک کے معنیٰ میں بھی استعمال ہوتا ہے اور یہاں حدیث میں وہ اِسی معنیٰ میں استعمال ہوا ہے۔
”غبطہ“ کہتے ہیں اِس کو کہ آدمی کسی کے حق میں زوالِ نعمت کی تمنّا تو نہ کرے البتّہ یہ تمنّا کرے کہ فلاں شخص کو جو نعمت ملی ہے، مجھے بھی مل جائے۔ اِس میں کوئی حرج نہیں ۔
رسول اللہﷺ نے جن دو - ۲ لوگوں کو رشکِ خلائق قرار دیا، اُن میں ایک وہ عالمِ دین ہے جو اپنے علم پر عمل بھی کرتا ہے اور دوسروں کو علم کی یہ دولت تقسیم بھی کرتا ہے۔ اِس معلوم ہوا کہ عالم اگر باعمل ہے اور معلّم بھی ہے تو قابل صد رشک ہے۔
٭٭٭٭
۳۴ علماء کا اٹھ جانا گمراہی کا پیش خیمہ ہے
۳۴ وَعَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍوؓ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِﷺ: إِنَّ اللهَ لَايَقْبِضُ العِلْمَ اِنْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ العِبَادِ وَلَكِنْ يَقْبِضُ العِلْمَ بِقَبْضِ العُلَمَاۗءِ، حَتّٰى إِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوْسًا جُهَّالًا فَسُئِلُوْا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوْا وَأَضَلُّوْا۔ (متفق علیہ)
(بحوالہ مشکوٰۃ: ۱/۳۳)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ علم کو اِس طرح