چنانچہ حضرت صفوان بن عسّال جب ایک طالبِ علم بن کر حضور اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپﷺ نے اپنے راحت وآرام کو تج فرما کر اُن کا پُرجوش استقبال فرمایا، قدردانی اور حوصلہ افزائی فرمائی۔
طلبۂ علومِ دینیہ کو اِس سے خود اپنے مقام ومرتبہ کا بھی اندازہ لگانا چاہیئے اور سمجھنا چاہیئے کہ دنیا اُن کی پذیرائی کرے یا نہ کرے، لوگ اُن کا استقبال کریں یا نہ کریں ، اللہ کا رسول اُن کی پذیرائی کر رہا ہے، فرشتے اُن سے اپنی محبّتوں کا اظہار کر رہے ہیں ، کیا یہ کم ہے؟
؏ ایں سعادت بزورِ بازو نیست
کہاں ہم اور کہاں یہ نکہتِ گُل
نسیمِصبح تیری مہربانی
٭٭٭٭
۱۴ حدیث پڑھنے پڑھانے والوں کے لیے حضورﷺ کی دعا
۱۴ وَعَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍؓ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللہِﷺ يَقُولُ:نَضَّرَ اللهُ امْرَءًا سَمِعَ مِنَّا شَيْئًا فَبَلَّغَهُ كَمَا سَمِعَہُ فَرُبَّ مُبَلَّغٍ أَوْعَى لَہُ مِنْ سَامِعٍ۔ (رواہ الترمذی وابن ماجہ)
(بحوالہ مشکوٰۃ: ۱/۳۵)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسولﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: اللہ اُس شخص کو