کے علاوہ جتنی چیزیں ہیں وہ زائد اور غیر مقصود ہیں ۔ معلوم ہوا کہ علمِ دین ہی حقیقتاً علم ہے۔
لہٰذا! علمِ دین کے طالب ہی حقیقی طالبِ علم اور علمِ دین کے حامل ہی حقیقی عالم ہیں ۔
٭٭٭٭
۲۶ علمِ دین کے ذریعہ فطری صلاحیتیں نکھر آتی ہیں
۲۶ وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ؓ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ : اَلنَّاسُ مَعَادِنُ کَمَعَادِنِ الذَّھَبِ وَالْفِضَّۃِ خِيَارُهُمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ خِيَارُهُمْ فِي الْإِسْلَامِ إِذَا فَقُهُوا۔ (رواہ مسلم)
(بحوالہ مشکوٰۃ: ۱/۳۲)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ نے ارشاد فرمایا کہ لوگ ”کان“ کے مانند ہیں جیسے سونے اور چاندی کی کانیں ہوتی ہیں ۔ اُن میں جو لوگ زمانۂ جاہلیت میں اچھے اور بہتر تھے وہ اسلام لانے کے بعد بھی اُن میں کے اچھے اور بہتر ہی ہوں گے بشرطیکہ وہ دین کا علم حاصل کرلیں ۔
فائدہ:انسان اشرف المخلوقات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اُس کے اندر فطری طور پر گونا گوں صلاحیتیں ودیعت فرمائی ہیں ، جو عموماً مخفی اور پوشیدہ ہوتی ہیں ۔ اگر اُن پر صحیح ڈھنگ سے محنت کی جائے اور اُن کو صحیح رخ دیا جائے تو انسان محیّرالعقول کارنامے انجام دے کر قابلِ صد رشک بن جاتا ہے۔ اِس حقیقت کو بیان کرنے کے لیے آپﷺ نے انسانوں کو معدنیات کی