کرکے دوسروں کو اُس سے فائدہ نہ پہنچایا جائے تو وہ علم بےکار ہے۔
اِس لیے ایک عالمِ دین کو چاہیئے کہ وہ باعمل بھی ہو بافیض بھی۔ یعنی لوگوں کو اُس کے علم سے فیض پہنچ رہا ہو۔
٭٭٭٭
۳۷ علمائے سوء روئے زمین کی بدترین مخلوق اور فتنوں کا سرچشمہ ہوں گے
۳۷ وَعَنْ عَلِیٍّ ؓ قَالَ قَالَ رَسوْلُ اللہِﷺ: يُوشِكُ أَنْ يَأْتِيَ عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ لَا يَبْقىٰ مِنَ الْإِسْلَامِ إِلَّا اِسْمُهُ، وَلَا يَبْقىٰ مِنَ الْقُرْاٰنِ إِلَّا رَسْمُهُ، مَسَاجِدُهُمْ عَامِرَةٌ وَهِيَ خَرَابٌ مِنَ الْهُدىٰ، عُلَمَاؤُهُمْ شَرُّ مَنْ تَحْتَ أَدِيْمِ السَّمَاۗءِ مِنْ عِنْدِهُمْ تَخْرُجُ الْفِتْنَةُ وَفِيْهِمْ تَعُوْدُ۔ (رواہ البیھقی فی شعب الایمان)
(بحوالہ مشکوٰۃ: ۱/۳۸)
ترجمہ:حضرت علیؓسے روایت ہے فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ نے ارشاد فرمایا کہ عنقریب لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ جس میں صرف اِسلام کا نام باقی رہ جائے گا اور قرآن کے صرف نقوش باقی رہیں گے۔ اُن کی مسجدیں بطاہر آباد ہوں گی مگر حقیقت میں ہدایت سے خالی ہوں گی۔ اُس زمانہ کے علماء آسمان کے نیچے سب سے بدترین مخلوق ہوں گے۔ خود اُن ہی میں سے فتنہ پھوٹے گا اور اُنہی میں