عمل کی توفیق اللہ تبارک وتعالیٰ ہی کی طرف سے عطا کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علم کی دولت تو تمام صحابہ کے حصّہ میں آئی، لیکن فہم وفراست اور تفقّہ ورسوخ کے اعتبار سے ان کے درمیان تفاوت ہے۔
٭٭٭٭
۲ تحصیلِ علم کے گوناگوں فضائل
۲ وَعَنْ کَثِیْرِ بْنِ قَیْسٍؒ قَالَ کُنْتُ جَالِسًا مَعَ اَبِی الدَّرْدَائِؓ فِیْ مَسْجِدِ دِمَشْقَ فَجَاءَہٗ رَجُلٌ فَقَالَ یَااَبَاالدَّرْدَائِ اِنِّی جِئْتُکَ مِنْ مَدِیْنَۃِ الرَّسُوْلِﷺ لِحَدِیْثٍ بَلَغَنِیْ أنَّکَ تُحَدِّثُهُ عَنْ رَّسُوْلِ اللهِ ﷺ مَاجِئْتُ لِحَاجَةٍ قَالَ فَإنِّيْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُوْلُ مَنْ سَلَکَ طَرِيْقًا يَطْلُبُ فِيْهٖ عِلْمًا سَلَکَ اللهُ بِهٖ طَرِيْقًا مِنْ طُرُقِ الْجَنَّةِ وَإنَّ الْمَلٰۗئِکَةَ لَتَضَعُ أجْنِحَتَهَا رِضًا لِطَالِبِ الْعِلْمِ وَإنْ الْعَالِمَ لَيَسْتَغْفِرُ لَهُ مَنْ فِي السَّمٰوَاتِ وَمَنْ فِي الْأرْضِ وَالْحِيْتَانُ فِيْ جَوْفِ الْمَاۗئِ وَإنَّ فَضْلَ الْعَالِمِ عَلَی الْعَابِدِ کَفَضْلِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ عَلٰی سَاۗئِرِ الْکَوْاکِبِ وَإنَّ الْعُلَمَاۗئَ وَرَثَةُ الْأنْبِيَاۗئِ وَإنَّ الْأنْبِيَاۗئَ لَمْ يُوَرِّثُوْا دِيْنَارًا وَلَا دِرْهَمًا وَاِنَّمَا وَرَّثُوا الْعِلْمَ فَمَنْ أخَذَهُ أخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ۔ (رواہ احمد والترمذی)
(بحوالہ مشکوٰۃ ۱/۳۳)
ترجمہ:حضرت کثیر بن قیس(تابعی) سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں دمشق کی مسجد میں حضرت ابودرداء کی مجلس میں