فائدہ: طالبِ علمی کے زمانہ میں وفات پانے والے شخص کے لیے اِس حدیث میں بڑی بشارت ہے بشرطیکہ حصولِ علم میں اس کی نیت خالص تھی۔ وہ غلبۂ اسلام کی نیت سے یعنی خود اپنی زندگی اور دوسروں کی زندگی میں اسلامی تعلیمات کو زندہ کرنے کی نیت سے علم حاصل کر رہا تھا، پھر اِسی حال میں اُس کی وفات ہوجاتی ہے تو وہ جنّت میں ایسے بلند وبالااور قابلِ رشک مقام پر فائز ہوگا کہ اُس کے اور حضراتِ انبیائے کرام؊ کے درمیان صرف ایک درجہ یعنی درجۂ نبوّت کا فرق ہوگا۔
کتنے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو پوری زندگی طالبِ علم بن کر گزارتے ہیں کہ جب بھی موت آئے وہ اِس بشارت کے مستحق ہوں گے۔
حضرت عبداللہ بن مبارکؒسے کسی نے کہا کہ اگر اللہ تعالیٰ آپ کو مطّلع فرمائیں کہ آج شام آپ کی وفات ہوجائے گی تو آپ اُس روز کون سا عمل کریں گے؟ ارشاد فرمایا کہ طلبِ علم کے لیے مستعد ہوجاؤں گا۔ اِس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے حضور اقدسﷺ کو کسی اور چیز کی زیادتی کی طلب کا حکم نہیں دیا سوائے علم کے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: قُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا۔
٭٭٭٭
۹ عالم اور طالبِ علم اللہ کی رحمت سے قریب ہیں
۹ وَعَنْ أَبِیْ هُرَيْرَةَؓ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِﷺ يَقُولُ: الدُّنْيَا مَلْعُوْنَةٌ وَمَلْعُوْنٌ مَا فِيهَا إِلَّا ذِكْرَ اللهِ تَعَالٰی وَمَا وَالَاہُ وَعَالِمًا أَوْ مُتَعَلِّمًا. (رواہ الترمذی)
(بحوالہ ریاض الصالحین: حدیث ۱۳۸۲)