چیز کے اِس قدر فضائل ومنافع ہوں کیا اُس کے حصول میں ادنیٰ درجہ کی بےتوجّہی، غفلت اور جمود وتعطّل کی گنجائش ہوسکتی ہے اور ایسی قیمتی ولازوال دولت ہاتھ آنے کے بعد بھی احساسِ کمتری اور اپنے کو بےوزن وبےقیمت سمجھنے کا جواز باقی رہ سکتا ہے؟
لیکن پھر کیا بات ہے کہ اِس نعمتِ عظمیٰ اور دولتِ سرمدی کے حصول کے لیے طلبہ میں وہ جوش وخروش نہیں ، وہ حوصلہ اور اُمنگ نہیں ، عیش وآرام کو تَج اور لذّاتِ دنیویہ کو تَرک کردینے کا وہ جذبہ نہیں جو اس کا متقاضی ہے۔ حصولِ علم کی راہ میں مشقّتوں کو برداشت کرنے اور ہر قیمت پر اپنے نصب العین کو مقدّم رکھنے کا عزمِ محکم نہیں ! یہ سرد مُہری، یہ تھکی تھکائی طبیعتیں ، یہ بجھے بجھے چہرے اور بقولِ شاعر ؏
نہ زندگی نہ معرفت نہ یقیں
آخر ایسا کیوں ہے؟
کیا جس شخص کی جیبیں سونے چاندی سے بھری جارہی ہوں اور جس کے دامن میں لعل وگہر جمع ہو رہے ہوں اُس کی پیشانی پر مایوسی کی سلوٹیں ہوسکتی ہیں ؟ اُس کی آنکھوں کی چمک کافور اور اُس کا دِل بےسرور ہوسکتا ہے؟ نہیں ، ہرگز نہیں ! لیکن پھر مدارسِ دینیہ کے طلبہ کے ساتھ یہ المیہ کیوں ہے؟
جواب صرف یہی ہے کہ وہ اب بھی اپنی ذات سے ناآشنا ہیں ، جس چیز کے حصول میں اپنی جوانیاں کھپا رہے ہیں اُس کی قدر وقیمت سے خود نابلد ہیں ۔ دل نے چاہا کہ ہر مدرسہ کے ہر طالبِ علم کی خدمت میں تحصیلِ علم کے فضائل پر مشتمل احادیثِ نبویہ کو ترجمہ ومختصر فوائد کے ساتھ ایک تحفہ کی شکل میں پیش کر دیا جائے یہ وہ احادیث ہیں جن کو وہ پڑھتے ضرور ہیں لیکن مستحضر نہیں رکھتے، جانتے ضرور ہیں لیکن اُن پر اذعان ویقین نہیں ، اِس امّید کے ساتھ کہ یہ تحفہ اُن کے دلوں میں ایک نئی حرارت اور رگوں میں ایک نیا جوش پیدا کردے گا اور دنیائے انسانیت کا یہ سب سے زیادہ مقدّس گروہ اپنے آپ کو پہچان لے گا اور اپنے مقام کو جان لے گا، ؏