اِس لیے کہ علم بذاتِ خود بھی مقصود ہے۔ بہت لوگ بڑی بےباکی سے کہہ دیتے ہیں کہ طلبہ کو حیض ونفاس کے مسائل پڑھا کر کیا حاصل، غلام اور باندیوں کے مسائل پڑھا کر کیا حاصل، فی الحال جہادِ شرعی کے مواقع نہیں تو ابوابِ جہاد پڑھا کر کیا حاصل وغیرہ وغیرہ۔
تو یاد رکھنا چاہیئے کہ علم بذاتِ خود بھی مقصود۔ محض اُس کے حصول پر مستقل اجر وثواب ہے، اگرچہ اُس پر عمل نہ کیا جاسکے، عمل کرلینے کے بعد اجر وثواب مزید برآں ہوگا۔
٭٭٭٭
۲۵ علمِ دین تمام علوم سے افضل ہے
۲۵ وَعَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍوؓ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِﷺ: اَلْعِلْمُ ثَلَاثَةٌ، اٰيَةٌ مُحْكَمَةٌ أَوْ سُنَّةٌ قَائِمَةٌ أَوْ فَرِيضَةٌ عَادِلَةٌ وَمَا کَانَ سِوٰى ذٰلِكَ فَهُوَ فَضْلٌ۔ (رواہ ابوداؤد وابن ماجہ)
(بحوالہ مشکوٰۃ: ۱/۳۵)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ نے ارشاد فرمایا کہ علم حقیقتاً تین چیزوں کا نام ہے: آیتِ محکمہ، سنّتِ قائمہ اور فریضۂ عادلہ اور اِس کے علاوہ جو کچھ ہے وہ زائد ہے۔
فائدہ:آیتِ محکمہ سے مراد قرآن مجید ہے۔ سنّتِ قائمہ سے مراد احادیثِ نبویہ علی صاحبہا الصلاۃ والسلام ہیں اور فریضۂ عادلہ سے مراد اجماع وقیاس ہیں ۔ اِس طرح رسول اللہﷺ نے جس چیز کو ”العلم“ قرار دیا، اس میں چاروں مصادرِ شرعیہ آگئے۔ علمِ دین کی ساری عمارت اِن ہی ستونوں پر قائم ہے۔ لہٰذا جس شخص نے اِن چیزوں کو سیکھ لیا اُس نے حقیقتاً علم حاصل کیا۔ اِن