۱۳ حضور اکرمﷺ کا طالبِ علم کو خوش آمدید کہنا
۱۳ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ الْمُرَادِيِّ ؓ قَالَ أَتَيْتُ النَّبِیَّﷺ وَهُوَ مُتَّكِیٌٔ فِي الْمَسْجِدِ عَلَى بُرْدٍ لَهُ أحْمَرَ، فَقُلْتُ لَہُ: يَا رَسُولَ اللهِ! إِنِّي جِئْتُ أَطْلُبُ الْعِلْمَ۔ فَقَالَﷺ: مَرْحَبًا بِطَالِبِ الْعِلْمِ، إِنَّ طَالِبَ الْعِلْمِ لَتَحُفُّهُ الْمَلَاۗئِكَةُ بِأَجْنِحَتِهَا، ثُمَّ يَرْكَبُ بَعْضُھُمْ بَعْضًا حَتّٰى يَبْلُغُوا السَّمَاۗءَ الدُّنْيَا مِنْ مُحَبَّتِھِمْ لِمَا يَطْلُبُ۔ (رواہ الطبرانی)
(بحوالہ منتخب احادیث ۲۷۳)
ترجمہ: حضرت صفوان بن عسّال مرادیؓسے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نبیٔ کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپﷺ اُس وقت اپنی سرخ دھاریوں والی چادر پر ٹیک لگائے تشریف فرما تھے۔ میں نے عرض کیا یارسول اللہ! میں علم حاصل کرنے آیا ہوں ۔ آپﷺ نے فرمایا: طالبِ علم کو خوش آمدید ہو، طالبِ علم کو فرشتے اپنے پَروں سے گھیر لیتے ہیں اور پھر اِس کثرت سے آکر ایک کے اوپر ایک جمع ہوتے رہتے ہیں کہ آسمانِ دنیا تک پہنچ جاتے ہیں اور وہ اُس علم کی محبّت کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں ، جس کو یہ طالبِ علم حاصل کررہا ہے۔
فائدہ: رسول اللہﷺ کی ذات سراپا عمل تھی۔ آپﷺ جس بات کا حکم دیتے خود بھی اُس پر عمل کرتے، بلکہ اوروں سے بڑھ کر عمل کرتے۔ آپﷺ نے طلبہ کے حق میں خیر کی وصیّت فرمائی تو خود بھی اُن کے ساتھ ویسا معاملہ فرمایا۔