۱ علمِ دین سراپا خیر ہے
۱ عَنْ مُعَاوِیَۃَؓقَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِﷺ: مَنْ یُّرِدِ اللہُ بِہٖ خَیْرًا یـُفَقِّھْہُ فِی الدِّیْنِ وَاِنَّمَا اَنَا قَاسِمٌ وَاللہُ یُعْطِیْ۔ (متفق علیہ)
(بحوالہ مشکوٰۃ: ۱/۳۲)
ترجمہ: حضرت معاویہؓسے روایت ہے فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص کے ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ خیر کا ارادہ فرماتے ہیں اُسے دین کی سمجھ عطا فرماتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ میں محض تقسیم کرنے والاہوں عطا کرنے والا تو اللہ ہی ہے۔
فائدہ:”خیر“ ایک ایسا جامع لفظ ہے جس میں ہر طرح کی بھلائی اور اچھائی شامل ہے۔ نیز لفظ خیر پر تنوین تفخیم (یعنی کثرت) کے لیے ہے۔
حدیث پاک کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی کو دنیا اور آخرت دونوں جہاں کی بھلائیاں عطا کرنا چاہتے ہیں تو اُسے حصولِ علمِ دین کی راہ پر ڈال دیتے ہیں اور پھر اپنے فضل سے اُسے علم میں رسوخ وگہرائی عطا فرماتے ہیں ۔ طالبِ علم اگر اس ارادۂ الٰہی کو سمجھ لے تو حصولِ علم کے لیے ہر طرح کی قربانی دینا اُس کے لیے آسان ہوجائے گا کہ ایک بہت بڑا خیر اُس کا مقدّر بننے والا ہے۔
اِنَّمَا اَنَا قَاسِمٌ وَاللہُ یُعْطِیْ کا مفہوم یہ ہے کہ علمِ دین کی تقسیم تو رسول اللہﷺ کے ذریعہ ہوئی، لیکن یہ ہے عطیۂ ربّانی۔ آپﷺ نے اپنے صحابہ کے درمیان اِس علم کو تقسیم فرمایا اور صحابہ سے نسل در نسل یہ دولت منتقل ہوتی رہی۔ لیکن اِس علم کا فہم، اِس میں تفقّہ، گہرائی وگیرائی اور اس پر