مشہور شعر ہے: ؏
شَکَوْتُ إلٰی وَقِیْعٍ سُوْءَ حِفْظِیْ فَأوْصَانِیْ إلٰی تَرْکِ الْمَعَاصِیْ
فَإنّ الْعِلْمَ نُوْرٌ مِّنْ إلٰھِیْ وَنُوْرُ اللہِ لَایُعْطٰی لِعَاصٍ
ترجمہ: میں نے اپنے استاذامام وقیع سے حافظہ کی کمزوری کی شکایت کی تو اُنھوں نے مجھے گناہوں کے چھوڑنے کی وصیّت کی، اس لیے کہ علم اللہ کا نور ہے اور نورِ الٰہی کسی گنہگار کو نہیں دیا جاتا۔
لہٰذا طالبِ علم کو چاہیئے کہ صغائر وکبائر سے اجتناب کرے اور سرزد ہوجانے پر فوراً صدقِ دِل سے توبہ کرلے۔
٭٭٭٭
۲۲ رسول اللہﷺ نے ذکر کی مجلس پر علم کی مجلس کو
اور ذاکرین کی صحبت پر اہلِ علم کی صحبت کو ترجیح دی
۲۲ وَعَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍوؓأَنَّ رَسُولَ اللهِﷺ مَرَّ بِمَجْلِسَيْنِ فِي مَسْجِدِهِ فَقَالَ كِلَاهُمَا عَلَى خَيْرٍ وَأَحَدُهُمَا أَفْضَلُ مِنْ صَاحِبِهِ أَمَّا هٰٓؤُلَاۗءِ فَيَدْعُونَ اللهَ وَيَرْغَبُونَ إِلَيْهِ فَإِنْ شَاۗءَ أَعْطَاهُمْ وَإِنْ شَاۗءَ مَنَعَهُمْ وَأَمَّا هٰٓؤُلَاۗءِ فَيَتَعَلَّمُونَ الْفِقْهَ والْعِلمَ وَيُعَلِّمُونَ الْجَاهِلَ فَهُمْ أَفْضَلُ وَإِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّمًا قَالَ ثُمَّ جَلَسَ فِيهِمْ۔ (رواہ الدارمی)
(بحوالہ مشکوٰۃ: ۱/۳۶)