ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2017 |
اكستان |
|
سے منع فرما دیا ہے، تو وہ اپنے سر پر مٹی ڈال کر اظہار افسوس کرنے لگا تو آنحضرت ۖ نے فرمایا کہ یہ تیرے عمل ِ بد کی نحوست ہے تونے میری بات کیوں نہیں مانی ؟ یہ سن کر واپس چلا آیا، پھر آنحضرت ۖ کی وفات کے بعد اُس نے حضرت ابو بکر صدیق، حضرت فاروقِ اعظم اور حضرت عثمان کے سامنے اپنا مال پیش کیا مگر اِن سب حضرات نے یہ کہہ کر اُس کا مال لینے سے انکار کردیا کہ جب آنحضرت ۖ نے قبول نہیں کیا تو ہم کیسے قبول کر سکتے ہیں۔ (تفسیر ابن کثیر ص٦٢٢ طبع جدید دار السلام ریاض) دیکھئے مال کی محبت، حرص اور بخل نے اس شخص کو کیسا راندہ ٔ درگاہ بنادیا اس لیے لازم ہے کہ جب کوئی شرعی مالی حق اپنے ذمہ میں واجب ہوجائے تو نہایت خوش دلی سے اُسے ادا کیا جائے اگر اس میں بخل ہوگا تو یہ اس بات کی دلیل ہوگی کہ اُس کا دل ایک مہلک روحانی بیماری میں مبتلا ہے۔زکوة کی ادائیگی میں بخل کرنے والوں کے لیے بھیانک سزا : اس دور میں زکوة کو ایک بڑا بوجھ سمجھا جانے لگا ہے اسراف اور فضول خرچی تو عام ہے ایک ایک تقریب پر لاکھوں لاکھ روپے پانی کی طرح بہادیے جاتے ہیں لیکن حساب لگا کر زکوة نکالنا طبیعت کو برا شاق اور گراں گزرتا ہے اسی بنا پر اگر کوئی مدرسہ کا سفیر یا مستحق فقیر کسی مالدار شخص کے دروازے پر پہنچ جائے تو اُس کی پیشانی پر سلوٹیں پڑجاتی ہیں، موڈ خراب ہو جاتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ جلد سے جلد یہ سائل اس کے سامنے سے ہٹ جائے، کئی چکر کٹوانے کے بعد اگر کچھ زکوة کے نام پر رقم دی بھی جاتی ہے تو انداز ایسا ہوتا ہے گویا اس پر بڑا احسان کیا جا رہا ہو، یہ سب تنگ ظرفی اور آخرت سے غفلت کی علامتیں ہیں۔ اگر ایسے حضرات زکوة کے بارے میں شریعت کے تاکیدی احکام اور زکوة نہ دینے کے بارے میں رونگٹے کھڑے کردینے والی وعیدیں پیش نظر رکھیں (اور بہت سے خوش نصیب حضرات اس کا خیال رکھتے بھی ہیں) تو وہ نہ زکوة دینے سے جی چرائیں گے اور نہ زکوة لینے والوں کو برا سمجھیں گے۔ اس وقت وعیدوں سے متعلق چند روایتیں ذکر کی جاتی ہیں۔ (١)عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَةَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ۖ مَامِنْ صَاحِبِ ذَھَبٍ وَلَا فِضَّةٍ لَایُوَدِّیْ مِنْھَا حَقَّھَا اِلَّا اِذَاکَانَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ صُفِّحَتْ لَہ صَفَائِحُ