ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2017 |
اكستان |
|
ہی ہوتا ہے تو اِس کی ممانعت بدرجہ اولیٰ ہوگی اور بوسہ دینا حجرِ اسود اور انبیائ، علماء اور صلحاء کے ہاتھ کے ساتھ مخصوص ہے، احیاء العلوم میں ہے کہ قبر کو نہ چھویا جائے نہ اُس کو بوسہ دیا جائے۔ اور علامہ سیوطی کی جامع صغیر میں ہے ''قبر کی زیارت کرو یہ آخرت کو یاد دلاتی ہے اور میت کو غسل دو کیونکہ ایسے بدن کی خدمت کرنا جورُوح سے خالی ہو چکا ہے پُرتاثیر و عظ ہے اور جنازہ کی نماز پڑھو شاید تمہارے دل میں غم پیدا ہو اور جس کے دل میں غم اور درد ہو وہ اللہ کے سایہ میں ہوگا قیامت کے روز۔ '' مناوی نے اپنی شرح مختصر میں فرمایا ہے کہ زیارتِ قبور مستحب ہے یعنی مردوں کے لیے اور ایسے ہی مردوں کو غسل دینا (مستحب ہے) لیکن قبر کو نہ چھوئے نہ اُس کو بوسہ دے کیونکہ یہ عیسائیوں کی عادت ہے۔ اور شرح مختصر میں دوسری جگہ حدیث کُنْتُ نَھَیْتُکُمْ کے تحت میں یہ ہے کہ مزارات پر جانا چاہیے یعنی اِس شرط کے ساتھ کہ قبر کو چھونے اور بوسہ دینے کی حرکت شامل نہ ہو کیونکہ بقول علامہ سُبکی یہ بد عت ِ منکرہ ہے۔''(٣) قبر کو سجدہ کرنا قبر کے سامنے جھکنا یا قبر کا طواف کرنا : فِیْ شَرْحِ الْمَنَاسِکِ لِمُلَّا عَلِیِّ الْقَارِی وَلَا یَطُوْفُ اَیْ وَلَا یَدُوْرُ حَوْلَ الْبُقْعَةِ الشَّرِیْفَةِ لِاَنَّ الطَّوَافَ مِنْ مُخْتَصَّاتِ الْکَعْبَةِ الْمُنِیْفَةِ فَیَحْرُمُ حَوْلَ قُبُوْرِ الْاَنْبِیَائِ وَ الْاوْلِیَائِ وَلَا عِبْرَةَ بِمَا یَفْعَلُہُ الْجَھَلَةُ وَلَوْکَانُوَا فِیْ صُوْرَتِ الْمَشَائِخِ وَالْعُلَمَائِ۔ وَلَایَنْحَنِیْ وَلَا یُقَبِّلُ الْاَرْضَ فَاِنَّہ اَیْ کُلُّ وَاحِدٍ بِدْعَة اَیْ غُیْرُ مُسْتَحْسَنَةٍ فَیَکُوْنُ مَکْرُوْھًا وَاَمَّا السَّجْدَةُ فَلَا شَکَّ اَنَّھَا مُحَرَّمَة فَلَا یَغْتَرُّالزَّائِرُِبِمَا یَرٰی مِنْ فِعْلِ الْجَاھِلِیْنَ بَلْ یَتَّبِعُ الْعُلَمَائَ الْعَامِلِیْنَ وَلَا یُصَلِّی اِلَیْہِ اَیْ جَانِبَ قَبَرِہ فَاِنَّہ حَرَام بَلْ یُفْتٰی بِکُفْرِہ اِنْ اَرَادَ عِبَادَتَہ وَتَعْظِیْمَ قَبَرِہِ۔ انتھٰی۔ وَفِی النَّھْرِ ھٰکَذَا