ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2017 |
اكستان |
|
''قبرستان میں ایک راستہ دیکھا، خیال ہے یہ بنا لیا گیاہے اُس راستہ پرنہ چلے اور اگریہ خیال نہیں ہوتا تو اُس پرچلنے میں مضائقہ نہیں ہے۔'' قبر سے تکیہ لگا کربیٹھنا بھی درست نہیں ہے، نہ مزار کے پاس سونا جائز ہے۔ (دُرِ مختار)(٥) جوتے اُتار دینا : آنحضرت ۖ نے ایک شخص کو دیکھا جو قبروں کے بیچ میں جوتے پہنے ہوئے چل رہا تھا آپ نے آواز دے کر فرمایا :یَا صَاحِبَ السِّبْتَیْنِ وَیْحَکَ اَلْقِ سِبْتَیْکَ ۔ ١ ''اے جوتے والے ! تیرا ناس ہو جوتے اُتاردے۔ '' قبرستان کی گھاس یا درخت اُکھاڑنایا کاٹنا جائز نہیں ہے البتہ سوکھی گھاس کاٹ سکتے ہیں۔ ٢عرس : عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَةَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ۖ یَقُوْلُ لَا تَجْعَلُوْا بُیُوْتَکُمْ قُبُوْرًا وَلَا تَجْعَلُوْا قَبْرِیْ عِیْدًا وَصَلُّوْا عَلَیَّ فَاِنَّ صَلٰوتَکُمْ تُبَلَّغُنِیْ حَیْثُ کُنْتُمْ ۔ ٣ ''حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ۖ نے فرمایا مت بناؤ اپنے گھروں کوقبریں اور نہ بناؤ میری قبر کو عید ٤ اور مجھ پر درود پڑھتے رہو کیونکہ تمہارا درود جہاں بھی تم پڑھو مجھے پہنچتا ہے۔''قَالَ فِیْ مَجْمَعِ الْبِحَارِ فِیْ شَرْحِ ھٰذَا الْحَدِیْثِ یَعْنِیْ قَوْلَہ لَا تَجْعَلُوْا قَبْرِیْ عِیْدًا اَیْ لَا تَجْعَلُوْا زِیَارَةَ قَبْرِیْ عِیْدًا اَوْقَبْرِیْ مَظْھَرَ عِیْدٍ ۔ اَیْ لَا تَجْتَمِعُوا لِزِیَارَتِہ اِجْتِمَاعَکُمْ لِلْعِیْدِ فَاِنَّہُ یَوْمُ لَھْوٍ وَ سُرُوْرٍ وَحَالُ الزِّیَارَةِ بِخِلَافِہ ۔کَانَ دَابُ اَھْلِ الْکِتَابِ فَاَوْرَثَھُمُ الْقَسْوَةَ اَوْمِنْ ھَجِیْرِ عَبَدَةِ الْاَوْثَانِ حَتّٰی عَبَدُوا الْاَمْوَاتَ ''مجمع البحار میں اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے علامہ مصنف نے کہاہے کہ میری قبر کو عید نہ بناؤ،اس کامطلب یہ ہے کہ میری قبر کی زیارت کرنے کو عید نہ بناؤ یا میری قبرکو عید کامظہر نہ بناؤ۔ مطلب یہ ہے کہ جس طرح عید کے روز لوگ جمع ہوا ------------------------------١ ابو داود وابن ماجہ بمعناہ ٢ مراتی الفلاح ٣ النسائی کذا فی المشکوة ٤ عرس ، میلا