ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2017 |
اكستان |
|
حقوق کو پس ِ پشت ڈال دے تو پھر یہ محبت خطرناک قلبی اور روحانی مرض میں تبدیل ہوجاتی ہے، اس کی مثال ایسی ہے جیسے انسانی بدن کے لیے ''شوگر'' ایک خاص مقدار میں ہونی ضروری ہے اس کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا لیکن یہی شوگر جب حد سے زیادہ پیدا ہونے لگتی ہے تو ایسے لاعلاج مرض میں تبدیل ہوجاتی ہے جو جسم کی رگوںکو کھوکھلا کر دیتا ہے اور انسان کی زندگی اجرین ہو جاتی ہے، اسی طرح جب دنیا کی محبت حد سے متجاوز ہوجاتی ہے تو وہ تمام گناہوں کی جڑ اور بنیاد بن جاتی ہے، حضرت حسن بصری کے مراسیل میں یہ جملہ مشہور ہےحُبُ الدُّنْیَا رَأْسُ کُلِّ خَطِیْئَةٍ دنیا کی محبت ہر برائی کی بنیاد ہے۔ علامہ مناوی (شارح جامع صغیر للسیوطی) لکھتے ہیں کہ تجربہ اور مشاہدہ سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ دنیا کی محبت ہی ہر برائی کی بنیاد بنی ہے مثلاً پرانی سر کش قوموں نے حضراتِ انبیاء علیہم السلام کی دعوت کا اسی لیے انکار کیا کہ وہ لذتوں میں مبتلا تھے اور انبیاء علیہم السلام کی دعوت قبول کرنے سے ان کی لذتوں اور شہوتوں کی تکمیل میں خلل آتا تھا اس لیے وہ اپنے داعیوں کی مخافت پر اُتر آئے اس طرح ابلیس لعین نے حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے اسی لیے انکار کیا کہ وہ حضرت آدم علیہ السلام کے وجود کو اپنی ریاست اور بڑائی میں رُکاوٹ سمجھتا تھا، یہی معاملہ نمرود، فرعون، ہامان وغیرہ کا تھا کہ یہ لوگ حب ِ جاہ کے نشہ میں بد مست ہو کر انبیاء علیہم السلام کے جانی دشمن بن گئے۔ ١ یہ دنیا کی محبت بڑے بڑے روحانی امراض کو جنم دیتی ہے ان میں ایک بڑی بیماری ''حرص و طمع'' ہے۔حرص : جب آدمی پر دنیا کی محبت کا نشہ چڑھتا ہے تو وہ حرص کا مریض بن جاتا ہے یعنی اس کے پاس کتنا ہی مال و دولت جمع ہوجائے مگر پھر بھی وہ '' ہَلْ مِنْ مَّزِیْدٍ '' کا طلبگار رہتا ہے اور دولت کی کوئی مقدار بھی اُس کے لیے سکون اور قناعت کا باعث نہیں بن پاتی جنابِ رسول اللہ ۖ کا ارشاد ہے: لَوْ اَنَّ ابْنَ آدَمَ اُعْطِیَ وَادِیًا مُلِیَٔ مِنْ ذَھَبٍ اَحَبَّ اِلَیْہِ ثَانِیًا وَلَوْاُعْطِیَ ثَانِیًا اَحَبَّ اِلَیْہِ ثَالِثًا وَلَا یَسُدُّ جَوْفَ ابْنِ آدَمَ اِلَّا التُّرَابُ وَیَتُوْبُ اللّٰہُ عَلٰی مَنْ تَابَ ۔ ٢ اگر آدمی کو سونے سے بھری ہوئی ایک ------------------------------١ فیض القدیر ج ٣ ص ٤٤٩ ٢ بخاری شریف کتاب الرقاق رقم الحدیث ٦٤٣٨