ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2017 |
اكستان |
|
گناہ سے محفوظ نہیں رہ سکتا ،غرض مداہنت(خوشامد،چرب زبانی)حرام ہے اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر واجب ہے ،دو حالت میں اس کا وجوب قائم نہیں رہ سکتا۔(١) علماء کا گناہوں پر سکوت کرنا : پہلی حالت یہ ہے کہ اُس کو معلوم ہو کہ میں اِس گناہ سے منع کروں گا تو مجھ کو نظر ِ حقارت سے دیکھا جائے گا اور نہ میری بات کی یہ لوگ پرواہ کریں گے اور نہ اِس گناہ کو چھوڑیں گے تو ایسی حالت میں نصیحت کرنا واجب نہ رہے گا اور یہ حالت اکثر اُن معصیتوں کے متعلق پیش آتی ہے جن کے مرتکب فقہاء و علماء یا ایسے لوگ ہوتے ہیں جو اپنے آپ کو دیندار اور متقی سمجھتے ہیں کیونکہ اگر کوئی شخص اِن کو نصیحت کرے تو اِن کو سخت ناگوار گزرتا ہے اور وہ گناہ چھوٹتا نہیں جس کو اُنہوں نے اختیار کیا ہے، ایسے موقع پر بے شک سکوت جائز ہے البتہ زبان سے پھر بھی نصیحت کردینا مستحب ہے۔ اس کے ساتھ اس کا بھی خیال رکھو کہ ایسی جگہ نصیحت کرنا واجب نہیں رہا مگر خود وہاں سے اُٹھ کر آنا ضرور واجب ہے کیونکہ بیٹھے رہنا اپنا اختیاری فعل ہے اوربااختیار خود معصیت کا دیکھنا بھی معصیت ہے پس جہاں دور شراب جاری ہو یا غیبت ہورہی ہو یا داڑھی منڈے بددین غیر متشرع(خلافِ شرع،فاسق)فاجر بیٹھے ہوں وہاں ہرگز نہ بیٹھو۔(٢) سخت ایذا کے قوی اندیشہ پر نصیحت چھوڑنا : دوسری حالت یہ ہے کہ ناجائز فعل سے باز رکھنے پرقدرت تو ہو مگر اِس کا غالب اندیشہ ہو کہ اگر دست اندازی کی تو ضرور یہ لوگ مجھے ماریں گے مثلاً کسی جگہ شراب کا شیشہ یاستار وغیرہ یااور کوئی سامان لہوولعب رکھا ہوادیکھو اور ممکن ہے کہ آگے بڑھ کر اِس کو توڑ پھوڑ دو مگر غالب گمان یہ ہو کہ ایسا کرنے سے اِس کا مالک تم کو ایذا دیے بغیر باز نہ رہے گا تو اِس صورت میں بھی چپ ہورہنا جائز ہے البتہ ہمت کرنا پھر بھی مستحب ہے کیونکہ ایسے امر خیر میں جو کچھ ایذا پہنچے گی اُس کے بھی بڑے اجر ہیں ایسی حالت میں سکوت کا جائز ہونا اس شرط پر ہے کہ بدنی تکلیف یعنی مارپیٹ مالی نقصان یا سبکیت یاآبروریزی یاایذارسانی کایقین یا غالب گمان ہو نہ کہ نصیحت کرنے سے اِن کو میری محبت نہ رہے گی