ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2017 |
اكستان |
|
یاناگوار گزرے گا اور مجھ کو زبان سے کچھ برا بھلا کہنے لگیں گے یا مجھ کو اپنا دشمن سمجھنے لگیں گے اور آئندہ کوئی تکلیف پہنچانے کی فکر کریں گے یا جو کچھ دیتے ہیں وہ بند کر لیں گے یاآئندہ کوئی دینی مصلحت و بہبودی کی توقع ہے اور نصیحت کرنے سے وہ مصلحت ہاتھ سے جاتی رہے گی تو ایسی موہوم باتوں کی شریعت میں کچھ وقعت نہیں ہے اور نہ اِن خیالات سے خلافِ شرع امر پر نصیحت کیے بغیر چپ ہو رہنا جائز ہے ،اِس کو خوب سمجھ لو۔فصل اوّل : واعظ کو حلیم الطبع(بردبارطبیعت رکھنے والا)نرم مزاج ہونا نہایت ضروری ہے کیونکہ اپنی نیک بختی جتانے اور دوسروں پراعتراض کرنے کی نیت سے وعظ کرنے کا نتیجہ اچھا نہیں نکلتا بلکہ اِس سے لوگوں کو صدمہ ہوتا اور برافروختگی (غصہ)بڑھتی ہے اور بجائے معصیت چھوڑنے کے وہ لوگ معصیت پر ضداور اصرار کرنے لگتے ہیں اور جب ضد بندھ گئی تو پھر نصیحت کرنا اللہ واسطے نہ رہا بلکہ اپنے دل کی جلن نکالنے اورپھپھولے پھوڑنے کی غرض سے ہوگیا لہٰذا جب وعظ کہو تو نہایت نرمی سے کہو اور نیت رکھو کہ کاش اللہ تعالیٰ کی یہ معصیت چھوٹ جائے اور کوئی دوسرا ہی واعظ اِس کو چھڑادے تو بہت ہے کیونکہ خود معترض اور ناصح بننے کی عزت کا خواستگار ہونا خلوص کے خلاف ہے ۔ ایک مرتبہ مامون رشید کو ایک واعظ نے کسی بات کی سختی کے ساتھ نصیحت کی تو مامون رشید نے واعظ سے کہا ذرا نرمی سے نصیحت کیا کرو دیکھو تم سے بہتر ناصح حضرت کلیم اللہ پیغمبر مجھ سے بدتر بندہ فرعونِ مصر کی جانب ناصح بنا کر بھیجے گئے تھے اور ان کو اللہ تعالیٰ کا حکم ہوا (فَقُوْلَا لَہ قَوْلًا لَیِّنًا ) ''اے موسی اور اے ہارون فرعون سے نرمی کے ساتھ باتیں کرو۔'' حضرت اُمامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ ایک نوجوان شخص رسول اللہ ۖ کی خدمت میں حاضر ہواور کہنے لگا کہ مجھے زنا کرنے کی اجازت دیجئے، اُس شخص کا یہ کلمہ سن کر لوگ اس کو ڈانٹنے لگے جناب رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ چھوڑو، اس شخص کی جانب متوجہ ہو کر فرمایاکہ یہاں آئو اور جب وہ شخص پاس آیا تو آپ نے کہا کہ میں تم سے ایک بات پوچھتا ہوں بھلا اگر تمہاری ماں سے