ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2017 |
اكستان |
|
پیغمبر علیہ السلام کا معمول تھا کہ جب سفر سے واپس تشریف لاتے تو مسجد میں نماز پڑھنے کے بعد سب سے پہلے سیّدہ فاطمہ سے ملنے کے لیے تشریف لے جاتے، اس کے بعد ازاج مطہرات کے پاس رونق افروز ہوتے تھے، چنانچہ ایک مرتبہ آپ سفر سے واپس آکر سیّدہ فاطمہ کے مکان پر تشریف لے گئے تو صاحبزادی سیدہ فاطمہ مکان کے دروازہ پر استقبال کے لیے موجود تھیں، وہ اپنی جان سے زیادہ عزیز والد ماجد کو دیکھ کر بے تاب ہوگئیں، آپ کے چہرۂ انور اور آنکھوں کا بوسہ دیا اور پھر بے اختیار روپڑیں، پیغمبر علیہ السلام نے فرمایا: بیٹی ! ''روتی کیوں ہو'' ؟ حضرت فاطمہ نے جواب دیا کہ میں آپ کو پراگندہ بال، تھکا ہوا دیکھ رہی ہوں اورآپ کے کپڑے بھی پرانے ہوچکے ہیں (اس لیے کہ اس وقت سفر سے واپسی کی وجہ سے جسد اطہر پر سفر کے اثرات نمایاں تھے جسے دیکھ کر حضرت سیّدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا دل بھر آیا) پیغمبر علیہ السلام نے جواب دیا کہ ''بیٹی ! رونے کی ضرورت نہیں، بات یہ ہے کہ تمہارے باپ کو اللہ تعالیٰ نے ایک ذمہ داری دے کر بھیجا ہے، وہ یہ ہے کہ رُوئے زمین پر کوئی کچا پکا گھر باقی نہ بچے جہاں دینِ اسلام داخل نہ ہوجائے اور دین ہر اُس جگہ پہنچ جائے جہاں تک رات آتی ہے۔'' (یعنی میں اِس حکم کی تعمیل میں یہ مشقتیں برداشت کررہا ہوں اس لیے اس پر غمزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے)۔(نساء فی ظل رسول اللہ حاشیہ عن الطبرانی والحاکم ٣٣٦)خاتونِ جنت کا اعزاز : اُم المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم ۖ کے مرض الوفات میں آپ کے قریب سب ہی ازواجِ مطہرات حاضر تھیں، اسی درمیان سیّدہ فاطمہ چلتی ہوئی تشریف لائیں جن کے چلنے کا انداز ہوبہو پیغمبر علیہ السلام کی چال کے مشابہ تھا، جب آنحضرت ۖ نے ان کو دیکھا تو ان کا یہ کہتے ہوئے استقبال کیا: مَرْحَبًا بِابْنَتِْ (میری بیٹی کا آنا مبارک ہو) پھر آپ نے ان کو اپنی بائیں یا دائیں جانب بٹھالیا، اس کے بعد نبی اکرم علیہ الصلوٰة والسلام نے حضرت فاطمہ سے کان میں کچھ سرگوشی کی جس کو سنتے ہی حضرت فاطمہ بہت زیادہ رونے لگیں، جب رسول اللہ ۖ نے ان کی بے قراری دیکھی تو آپ نے ان سے دوبارہ سرگوشی کی جس پر حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فورًا