ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2017 |
اكستان |
|
''عورت کی سب سے اچھی صفت یہ ہے کہ وہ نہ تو خود غیر مردوں کو دیکھے اور نہ اُس پر کسی غیر مرد کی نظر پڑے۔'' یہ بات حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے نبی اکرم ۖ سے جاکر نقل کردی تو آپ نے اس کی تصدیق کی اور فرمایا فَاطِمَةُ بَضْعَة مِّنِّْ یعنی فاطمہ تو میرے بدن کا ٹکڑا ہے (یعنی انہوں نے جو کہا وہ گویا شریعت کی عین ترجمانی ہے)۔گھر کے کام کاج کے بارے میں حضرت فاطمہ کا طرزِ عمل : نبی اکرم ۖنے سیّدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے لیے رخصتی کے وقت گھریلو ضرورت کی چند اشیاء (چمڑے کا بستر، مشکیزہ، مٹکے اور چکی) کا انتظام فرمادیا تھا، چنانچہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اپنے ہاتھ سے چکی سے آٹا پیستی تھیں، آٹا گوندھتی تھیں اور روٹی پکاتی تھیں اور گھر کا دیگر کام کاج بھی خود ہی انجام دیتی تھیں جس سے ہاتھ میں گٹے پڑگئے تھے، ایک موقع پر آپ کی طرف سے نبی اکرم ۖ کی خدمت میں خادم عطافرمانے کی درخواست کی گئی تو نبی اکرم ۖ نے خادم دینے کے بجائے اپنی چہیتی بیٹی کو تسبیح وتحمید کی تلقین کی جس کو ''تسبیح فاطمی'' کہا جاتا ہے۔ سیّدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جو اہلِ بیت میں نبی اکرم ۖ کی سب سے زیادہ چہیتی تھیں میرے نکاح میں تھیں، چکی سے آٹا پیسنے سے ان کے ہاتھوں میں نشان پڑگئے تھے اور مشکیزہ سے پانی نکالنے سے ان کے سینے پر گٹے پڑگئے تھے اور گھر کی صفائی ستھرائی کی وجہ سے کپڑے گرد آلود اور مٹیالے ہوگئے تھے اور چولہے پر کھانا پکانے کی وجہ سے کپڑے عیب دار ہوگئے تھے، الغرض آپ پر گھریلو کاموں کا بڑا بوجھ تھا۔ ایک مرتبہ ہمیں پتہ چلا کہ کہ نبی اکرم ۖ کے پاس کچھ غلام باندیاں آئی ہیں تو میں نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو آمادہ کیا کہ وہ پیغمبر علیہ السلام کے پاس جاکر اپنے لیے کسی خادم کی درخواست کریں جو اِن کے کام کاج میں معاون بن سکے، چنانچہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اِسی غرض سے نبی اکرم ۖ کی خدمت میں ------------------------------١ معارف القرآن ج٧ص٢١٦ ، حیاء اور پاکدامنی ص ٩٥