ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2017 |
اكستان |
|
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی اکرم ۖ نے ارشاد فرمایا کہ آسمان سے ایک فرشتہ اُترا جس نے اللہ تعالیٰ سے مجھے سلام کرنے کی اجازت مانگی تھی، وہ فرشتہ اس سے قبل کبھی نازل نہ ہوا تھا چنانچہ اُس نے آکر مجھے یہ بشارت سنائی کہ ''فاطمہ اہلِ جنت کی عورتوں کی سردار ہیں'' ١ سیّدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکو خاتونِ جنت ہونے کا اعزاز محض اس لیے نہیں ملا کہ وہ سیّدنا حضرت محمد مصطفی ۖ کی چہیتی صاحبزادی تھی اور نہ اس لیے ملا کہ وہ صاحب ِحسن وجمال تھیں بلکہ اُن کی عزت کا اصل سبب اور جوہر وہ اخلاقی کردار ہے جس کا اُنہوں نے دنیا کے سامنے عملی نمونہ پیش کیا، اگر وہ بے مثال کردار نہ ہوتا تو محض نبی کی قرابت یا ذاتی خوبصورتی ان کو'' خاتونِ جنت '' کا اعزاز دلانے کے لیے کافی نہیں ہوسکتی تھی۔عفت ماٰبی کے سلسلہ میں حضرت فاطمہ کا نظریہ : دنیا والے یہ سمجھتے ہیں کہ بہترین عورت وہ ہے جو حسن وجمال والی ہو، زیب وزینت اور میک اَپ کی دلدادہ ہو، محفلوں اور بازاروں اور تفریح گاہوں میں آنے جانے میں اُسے کوئی عار نہ ہو، ایسی ہی عورتوں کو آج پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور اس معاملہ میں خواتین ایک دوسرے پر سبقت کرتی نظر آتی ہیں لیکن خاتونِ جنت حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا کردار اس بارے میں کیا ہے اس کا اندازہ درج ذیل واقعہ سے ہوسکتا ہے : ''حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی اکرم ۖ کی مجلس میں یہ ذکر چل رہا تھا کہ عورت کے لیے کون سی بات سب سے اچھی ہے ؟ اہلِ مجلس خاموش رہے، بعد میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ گھر تشریف لے گئے اور جاکر سیّدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پوچھا کہ آج مجلسِ نبوت میں یہ ذکر چل رہا تھا کہ کون سی عورت سب سے اچھی ہے ؟ اس بارے میں آپ کی رائے کیا ہے ؟ اس پر حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ ------------------------------١ مستدرک حاکم ٤٧٢٢ بحوالہ نساء فی ظل رسول اللّٰہ ص٣٣٤