ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2017 |
اكستان |
|
کی جاتی ہے کہ ان کا دائرۂ عمل ان کا گھر نہیں بلکہ ساری خارجی دنیا ہے، کھیل کے میدان میں آگے بڑھیں، ڈانس، گانا بجا (جن کو فنونِ لطیفہ کا خوبصورت نام دے دیا گیا ہے) سیکھ کر بدکاروں کو سامان عیش فراہم کریں اور زندگی کے ہر شعبہ میں مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہوں، انہیں نہ تو شوہروں کی اطاعت کا خیال ہو اور نہ بچوں کی تربیت کا احساس ہو تا کہ دنیا سے خاندانی معاشرتی نظام مٹادیا جائے اور جس طرح مغربی عورتیں بدکاریوں کے دلدل میں پھنسی ہوئی ہیں اسی طرح یہ گندگی کا ماحول پورے عالَم میں پھیلادیا جائے، آج اسی بے حجابی بلکہ بیہودگی کو عزت کا معیار بنالیا گیا اور پردہ اور حجاب کو دقیانوسیت اور قدامت پرستی کا نام دیا جانے لگا۔ تو دنیا والے کچھ کیا کریں اور کچھ سمجھاکریں، ایک مسلمان عورت کو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ عزت وعافیت اس جھوٹی آزادی سے ہرگز حاصل نہ ہوگی بلکہ مسلمان عورت کو عزت ان ہی اخلاق وکردار پاکیزگی اور پاکدامنی سے ملے گی جنہیں اپناکرسیّدہ فاطمہ کو عزت ملی، ازواجِ مطہرات کو عظمت کا مقام ملا اور حضرات صحابیات کا نام دنیا اور آخرت میں روشن ہوا صرف یہی پاکیزہ کردار عورت کی عزت کا سبب ہے اِس کے علاوہ کسی راستہ میں عورت کو نہ عزت ملی ہے اور نہ مل سکتی ہے۔آخری درجہ کی پاکبازی : خاتونِ جنت جگر گوشۂ رسول حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی عفت ماٰبی اور پاکبازی کا کچھ اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب آپ مرض الوفات میں تھیں اور زندگی سے بالکل مایوس ہوچکی تھیں تو آپ نے اپنی تیمار دار حضرت اسماء بنت عمیس سے نہایت حسرت بھرے انداز میں فرمایا کہ ''جب میرا انتقال ہوجائے گا تو میری لاش کھلے طور پر چارپائی پر رکھ کر لے جائی جائے گی (اور اجنبی مردوں کی نظریں میرے کفن پر پڑیںگی) اسے سوچ سوچ کر مجھے شرم آرہی ہے''۔ یہ سن کر حضرت اسماء نے فرمایا کہ میں آپ کو ایسا جنازہ بناکر دکھاتی ہوں جو حبشہ کے علاقہ میں عورتوں کے لیے بنایا جاتا ہے تو حضرت فاطمہ نے فرمایا کہ دکھلاؤ چنانچہ حضرت اسمائ نے چند تازہ ٹہنیاں منگوائیں اور ان سے ڈنڈیاں نکال کر انہیں چارپائی کے اُوپر اس طرح فٹ کردیا کہ اُوپر سے چادر ڈالنے پر اندر کے جسم کا پتہ