ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2017 |
اكستان |
|
نہ چل سکے، حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اس طرح کے جنازہ کے انداز کو دیکھ کر اطمینان کا سانس لیا اور مسکراکر اپنی خوشی کا اظہار کیا حالانکہ آپ کو پیغمبر علیہ السلام کی وفات کے بعد کبھی مسکراتے نہیں دیکھا گیا تھا، چنانچہ حضرت فاطمہ کی وفات پر اِسی انداز کا جنازہ بنایا گیا اور رات ہی میں آپ کی تدفین کردی گئی۔ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا وَاَرْضَاہَا۔ ( نساء فی ظل رسول اللہ ۖ ص ٣٤٨ـ٣٤٩) یہ ہے عفت ماٰبی ! کہ وفات کے بعد بھی اجنبیوں کی نظر پڑنے کے تصور سے شرم آرہی ہے، دوسری طرف آج کی بے حیا عورتوں کا حال ہے کہ انہیں زندگی میں بھی بے پردگی اور عریانیت پر شرم نہیں آتی اور بس نہیں چلتا کہ بدن کو لباس کی قید سے بالکل آزاد کردیں اور اسی آزاد روی کو آج معیارِ ترقی سمجھ لیا گیا ہے حالانکہ یہ بے لباسی عورت کے لیے عزت نہیں بلکہ اِس کی بد ترین توہین ہے مگر دنیا کی چمک دمک اور شاطر دماغ بدکاروں کی پلاننگ نے ایسا ماحول بنادیا ہے کہ نادان عورت اپنی توہین ہی کو عزت سمجھ بیٹھی ہے اور پردہ جو اِس کے تحفظ کی فطری ضمانت ہے اس کو اپنے لیے بوجھ سمجھ رہی ہےشرم سے ڈوب مرنے کا مقام : چند روز قبل احقر ٹرین کے ذریعہ دہلی سے مرادآباد آرہا تھا، قریب کی سیٹ پر ایک غیر مسلم نوجوان بیٹھا تھا اُس نے دورانِ گفتگو ایک مسلم ٹینس کھلاڑی دوشیزہ (جس کا نام لینا بھی شریفوں کے لیے باعثِ شرم ہے) کا ذکر چھیڑ دیا کہ اِس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ؟ میں نے کہا کہ اگر آپ کے گھر کی خاتون اِس طرح نیم برہنہ ہوکر لوگوں کے سامنے آئے تو آپ کو کیسا لگے گا ؟ اُس نے کہا کہ ہمیں یقینا برا لگے گا، میں نے کہا کہ اسلام بھی یہی کہتا ہے کہ کسی بھی عورت کے لیے اس طرح کی بے حیائی جائز نہیں ہے، یہ سن کر اُس نے پاکستان کی ایک معروف اور بدنام زمانہ فلم ایکٹرس کا نام لیا اور طنز کرتے ہوئے بولا کہ آپ اسلام کا نام لیتے ہیں اور مذکورہ پاکستانی ایکٹرس نے ہندوستانی فلم میں آکر ایسے بولڈ مناظر دکھائے کہ عریانیت کے سب ریکارڈ توڑ ڈالے، میں نے کہا کہ برائی تو بہرحال برائی ہے ہندوستانی، پاکستانی یا دنیا کے کسی اور ملک کے باشندہ سے جو غلطی صادر ہوگی اُسے بہر حال غلط کہا جائے گا اور پھر پاکستان کوئی اسلام کا نمائندہ ملک نہیں ہے کہ وہاں کی کسی بدعمل اور بدکار