ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2017 |
اكستان |
|
ایک عبرتناک واقعہ : دورِ نبوی میں ایک شخص ثعلبہ بن اَبی حاطب تھا ١ اُس نے نبی اکرم ۖ سے درخواست کی کہ آپ اس کے لیے مالی وسعت کی دعا فرمادیں، آپ نے فرمایا ''اے ثعلبہ تھوڑا مال جس کا تم شکرادا کر سکو وہ اُس زیادہ مال سے بہتر ہے جس کا تم حق ادا نہ کر سکو۔'' اُس نے پھر درخواست دہرائی تو آنحضرت ۖ نے فرمایا : اے ثعلبہ ! کیا تو اللہ کے نبی کی حالت کی طرح اپنانے پر راضی نہیں اُس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر میں چاہوں کہ سونے چاندی کے پہاڑ میرے ساتھ چلیں تو وہ چلنے پر تیار ہوجائیں (مگر مجھے یہ پسند نہیں) یہ سن کر ثعلبہ بولا : اُس ذات کی قسم جس نے آپ کو رسولِ برحق بنا کر بھیجا ہے ، اگر آپ نے اللہ سے دعا کردی اور مجھے اللہ نے مال دے دیا تو میں ضرور حقدار کو اس کا حق ادا کروں گا تو آنحضرت ۖ نے دعا فرمائی اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنِیْ ثَعْلَبَةَ مَالًا ''اے اللہ ! ثعلبہ کو مال عطا فرما'' چنانچہ ثعلبہ نے کچھ بکریاں پال لیں تو ان میں کیڑے مکوڑوں کی طرح زیادتی ہوئی تا آنکہ مدینہ کی رہائش اس کے لیے تنگ پڑ گئی چنانچہ وہ آبادی سے ہٹ کر قریب کی ایک وادی میں مقیم ہو گیا اور صرف دن کی دو نمازیں ظہر اور عصر مسجد نبوی میں پڑھتا تھا بقیہ نمازوں میں نہیں آتا تھا پھر بکریاں اور زیادہ بڑھ گئیں کہ وہ وادی بھی تنگ پڑنے لگی تو وہ اور دُور چلا گیا کہ ہفتہ میں صرف جمعہ کی نماز کے لیے مدینہ آیا کرتا تھا حتی کہ یہ معمول بھی چھوٹ گیا، اب جو قافلے راستے سے گزرتے تھے ان سے مدینہ کے حالات معلوم کرنے ہی پر اکتفاء کرتا تھا۔ اسی دوران ایک روز آنحضرت ۖ نے صحابہ سے پوچھا کہ ''ثعلبہ کہاں ہے'' تو لوگوں نے بتایا کہ اُس نے بکریاں پالی تھیں وہ اتنی زیادہ بڑھیں کہ اُس کے لیے مدینہ میں رہنا مشکل ہو گیا چنانچہ وہ دُور چلا گیا ہے تو نبی اکرم ۖ نے تین مرتبہ فرمایا یَاوَیْحَ ثَعْلَبَةَ(ہائے ثعلبہ کی تباہی) پھر جب صدقات وصول کرنے کا حکم نازل ہوا تو آنحضرت ۖ نے قبیلہ ٔ جہینہ اور بنو سلیم کے دو آدمیوں کو ثعلبہ اور ایک سلمی شخص کا صدقہ وصول کرنے بھیجا وہ دونوں سفیر پہلے ثعلبہ کے پاس پہنچے اور اس سے زکوة کا مطالبہ کیا اور آنحضرت ۖ کی تحریر پڑھ کر سناء