حنفی نماز مدلل ۔ احادیث طیبہ کی روشنی میں |
یرِ نظر |
|
(4)آمین کے زور سے کہنے کا مطلب بہت زیادہ اونچی آواز کے ساتھ آمین کہنا نہیں بلکہ اس سے”جہرِ خفیف“یعنی ہلکی آواز سے آمین کہنا مراد ہےجو سراً آمین کہنے کے خلاف نہیں ،اور اس کی تائید کئی روایات سے ہوتی ہے ،چنانچہ ابوداؤد شریف کی ایک روایت ہےجس میں نبی کریمﷺکے آمین کہنے کی کیفیت کو یوں بیان کیا گیا ہے:”حَتَّى يَسْمَعَ مَنْ يَلِيهِ مِنَ الصَّفِّ الْأَوَّلِ“ یعنی آپﷺنے سورۃ الفاتحہ کے اختتام پر اتنی آواز سے آمین کہا یہاں تک کہ آپ ﷺسے متصل پہلی صف کے کچھ لوگوں نے سنا۔(ابواداؤد:934) روایتِ مذکورہ میں”مِنْ“ تبعیضیہ یعنی بعضیت کو بیان کرنے کیلئے ہے جس کا مطلب یہی ہے کہ”پہلی صف کےکچھ لوگوں نے سنا“پوری صف کے لوگوں کا سننا مراد نہیں ، کیونکہ اگر یہ تبعیض کیلئے نہ ہو اور مطلب یہ لیا جائے کہ پہلی صف کے تمام لوگوں نے سن لیا تو یہ درست نہ ہوگا کیونکہ یہ کیسے مُمکن ہوسکتا ہے کہ پہلی صف میں دور تک دائیں بائیں جانب کےتمام لوگوں نے تو سن لیا ہو لیکن اِمام کے بالکل پیچھے قریب کے دوسری صف میں کھڑے ہوئےلوگوں تک بھی آواز نہ پہنچی ہو ۔اِسی طرح ایک روایت میں ہے:”حَتَّى يُسْمِعَ مَنْ يَلِيهِ“ یعنی آپﷺاِتنی آواز سے آمین کہتے کہ اپنے سے متصل لوگوں کوسنادیا کرتے تھے۔(مصنّف عبد الرزاق:2632) پس اِن روایات کی روشنی میں روایاتِ جہریہ کا مطلب بھی ”جہرِ خفیف“ہی لیا جائے گا اوریہ نبی کریمﷺکایہ عمل بھی لوگوں کو تعلیم دینے اور سکھانے کیلئےتھا ۔پس اِس طرح روایات کا باہمی تضاد بھی باقی نہ رہے گا ،حضرات صحابہ کرام کے عمل کی اتباع بھی ہوجائے گی اور دُعاء کا جو اصل ادب ہے اُس کی رعایت بھی ہوسکے گی ۔